Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
یہ وہ لوگ ہیں جو سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت ہے اور رزق کریم ہے۔
مذکورہ صفات والے سچے مومن ہیں : آخر میں فرمایا (اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ) (یہ لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت ہے اور رزق کریم ہے) اس میں اول تو یہ فرمایا کہ جن حضرات کا اوپر ذکر ہوا یہی سچے مومن ہیں پھر ان کے لیے درجات اور مغفرت اور رزق کریم کی بشارت دی، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ تین انعام مذکورہ بالا تین قسم کے اوصاف کے مقابل ہیں ایمان باللہ اور اللہ کے ذکر کے وقت ہیبت سے سہم جانا اور اس کی آیات سن کر ایمان کا بڑھ جانا اور اس کی ذات پر بھروسہ کرنا، یہ امور قلب یعنی دل سے متعلق ہیں اس کا انعام درجات عالیہ رفیعہ کی صورت میں ملے گا اوراقامۃ الصلاۃ میں تمام بدنی عبادات آگئیں۔ ان کے مقابلہ میں مغفرت کا انعام ہے۔ (عموماً عبادات بدنیہ کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے) اور وجوہ خیر میں مال خرچ کرنے کے مقابلہ میں رزق کا وعدہ فرمایا، قال صاحب الروح (ص 129 ج 9) و ربما یقال فی وجہ ذکر ھذہ الاشیاء الثلاثۃ علی ھذا الوجہ ان الدرجات فی مقابلۃ الاوصاف الثلاثۃ اعنی الوجل والاخلاص و التوکل و یستأنس لہ بالجمع و المغفرۃ فی مقابلۃ اقامۃ الصلوۃ و یستأنس لہ بما ورد فی غیر ماخَیْرَان الصلوٰۃ مکفرات لما بینھا من الخطایا و انھا تنقی الشخص من الذنوب کما ینقی الماء من الدنس، و الرزق الکریم بمقابلۃ الانفاق 1 ھ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اس ترتیب سے ان تین چیزوں کے ذکر کی وجہ بعض دفعہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جنت کے درجات تو تین اوصاف یعنی خوف، اخلاص اور توکل کے بدلہ میں اور اطمینان و مغفرت نماز قائم کرنے کے بدلے میں ہے اور کئی احادیث میں ہے کہ نمازیں ایک دوسرے کے درمیانی وقت کی کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہیں اور یہ آدمی کو گناہوں سے اس طرح پاک صاف کردیتی ہیں جیسے پانی میل کو صاف کردیتا ہے اور رزق کریم انفاق کے بدلہ میں ملے گا) ۔ درجات جنت کی وسعت : حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں سو درجے ہیں اور ان درجات کے درمیان آپس میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ ان میں فردوس سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اسی سے جنت کی چاروں نہریں جاری ہیں اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے سو جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ ص 496) حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں سو درجات ہیں اگر سارے جہان ان میں سے ایک درجہ میں جمع ہوجائیں تو اس ایک درجہ میں سب سما جائیں۔ (مشکوٰۃ لمصابیح ص 497)
Top