Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے اور وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک رہے تھے اور اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اکڑتے مکڑتے ریا کاری کے لیے نکلے پھر فرمایا (وَ لَا تَکُوْنُوْاکَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَّ رِءَآء النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (یعنی تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے) جو لوگ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان میں اکڑ مکڑ اور اترانے اور فخر کرنے کا مرض ہوتا ہے۔ پھر وہ اس کی وجہ سے نیچا دیکھتے ہیں۔ علامہ بغوی (رح) معالم التنزیل ص 254 ج 2 میں لکھتے ہیں کہ آیت بالا مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو فخر اور تکبر کے انداز میں چلے۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ لوگ اپنے تکبر اور فخر کے ساتھ آتے ہیں آپ سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ آپ نے جو مدد کا وعدہ فرمایا ہے اس کے مطابق مدد فرمائیے۔ ابو سفیان تو اپنا قافلہ لے کر بچ نکلا جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے قریش کو رائے دی کہ اب آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں واپس ہونا چاہئے اس پر ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ہم جب تک بدر نہ پہنچ جائیں واپس نہ ہوں گے وہاں تین دن قیام کریں گے اونٹ ذبح کریں گے کھانے کھلائیں گے۔ شرابیں پلائیں گے اور گانے والیاں ہمارے پاس گانے گائیں گی اور عرب میں ہماری شہرت ہوجائے گی پھر وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ بات تو بڑی کہی تھی لیکن قریش کے تکبر اور فخر کا نتیجہ یہ ہوا کہ شرابوں کی جگہ موت کے پیالے پئے اور گانے والی عورتوں کی بجائے نوحہ کرنے والی عورتوں نے ان پر نوحہ کیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو منع فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا اور مومن کو حکم دیا کہ نیت خالص اللہ کی رضا کی رکھیں اور دین کی مدد اور نبی اکرم ﷺ کی تائید میں لگے رہیں۔ 1 ھ اگر لشکر زیادہ ہو تب بھی اترانا اور شہرت کے لیے جنگ کرنا اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا لے بیٹھتا ہے اور شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ غزوۂ حنین میں ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کو اولاً شکست ہوگئی کیونکہ انہیں اپنی کثرت پر گھمنڈ ہوگیا تھا۔ کما قال تعالیٰ (اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْءًا) (الآیۃ) نماز ہو یا جہاد یا انفاق مال یا کوئی بھی نیک عمل ہو اس کا ثواب اسی وقت ملتا ہے جبکہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ مال غنیمت ملے اور ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی شہرت ہو اور ایک شخص اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اس کی بہادری کا چرچا ہو تو ارشاد فرمائیے ان میں اللہ کی راہ میں کون ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس لیے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 331 از بخاری و مسلم) اکڑ مکڑ، اپنی ذات اور جماعت پر بھروسہ یہ سب اہل ایمان کی شان کے خلاف ہے۔ اس سے اخلاص جاتا رہتا ہے جو لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہیں ان میں تواضع ہوتی ہے اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اللہ ہی کے لیے لڑتے ہیں اور اسی کے لیے مرتے ہیں عین قتال کے موقع پر کافروں کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اکڑ مکڑ دکھانا بھی اللہ کو محبوب ہے۔ دل میں تواضع اور اللہ پر بھروسہ اور ظاہر میں کافروں کو جلانے کے لیے اتراتے ہوئے کافروں کے مقابلہ میں آنا یہ محبوب و مرغوب ہے۔ فی الحدیث فاما الخلاء التی یحب اللہ فاختیال الرجل عند القتال و اختیالہ عند الصدقۃ (کمافی المشکوٰۃ ص 287) حدیث میں ہے وہ اترانے والے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ قاتل کے وقت کا اترانا ہے اور صدقہ کے وقت کا اترانا (یعنی صدقہ دل کی خوشی سے اور استغفار سے دے) ۔ مشرکین کا تذکرہ فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا (وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) کہ وہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، قریش مکہ خود بھی اسلام قبول نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے تھے۔ اگر اسلام قبول کرلیتے تو جنگ کا موقعہ ہی نہ آتا لیکن ان کی شرارت نفس نے ان کو یہاں پہنچایا کہ بدر میں آکر مقتول ہوئے۔ (وَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ) (اور اللہ ان کے تمام اعمال سے باخبر ہے لہٰذا وہ ان کو ان کی سزا دے گا) ۔
Top