Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے مقدر نہ ہوچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تم کو بڑا عذاب پہنچ جاتا،
اس کے بعد فرمایا (لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ) (اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے مقدر نہ ہوچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تم کو بڑا عذاب پہنچ جاتا) اس نوشتہ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں حضرات مفسرین نے حضرات صحابہ ؓ اور تابعین کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے اُمِ الکتاب میں چونکہ یہ لکھ دیا تھا کہ مال غنیمت امت مسلمہ کے لیے حلال ہوں گے (جس میں قیدیوں سے فدیہ لینا بھی شامل ہے) اس لیے اللہ تعالیٰ نے عذاب روک لیا۔ مفسر ابن کثیر نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود اور حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ اور حضرت اعمش سے یہ بات نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ مفسر ابن جریج نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ صاحب روح المعانی نے ص 34 ج 6 پر ایک یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات لکھی ہوئی نہ ہوتی کہ جب تک کسی قوم کے لیے بطور امرو نہی واضح طور پر حکم بیان نہ ہوجائے اس وقت تک عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب نہ ہوگا تو عذاب آجاتا۔ چونکہ واضح طور پر فدیہ لینے کی ممانعت بیان نہیں ہوئی تھی اس لیے عذاب روک دیا گیا۔ صاحب روح المعانی نے اس قول کو بھی حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے، پھر ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات مقرر اور مقدر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں عذاب نہیں آئے گا۔ جیسا کہ اس سورة کے رکوع نمبر 4 میں گزر چکا ہے۔ اس لیے عذاب نہیں آیا اور ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کی زبانی یہ اعلان ہوچکا تھا کہ جو لوگ بدر میں شریک ہوئے تھے ان کی مغفرت کردی گئی (اور رائے دینے والوں میں مشورہ دینے والے بھی تھے) اس لیے عذاب نہیں آیا۔ پھر صاحب روح المعانی نے ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے چونکہ یہ مقرر تھا کہ جو فدیہ تم نے لیا ہے وہ تمہارے لیے حلال کردیا جائے گا۔ اس لیے عذاب نہیں بھیجا۔ پھر اس پر کچھ سوال و جواب بھی کیا ہے۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک اگر یہ تمام چیزیں مراد ہوں جو مختلف اقوال کی صورت میں بیان ہوئیں تو اس میں بھی کوئی بُعد نہیں ہے۔ وبھذا یجمع بین الروایات المختلفۃ عن الحبر فی بیان ھذا الکتاب و ذلک بان یکون فی کل مرۃ ذکر امرا واحدا من تلک الامور، و التنصیص علی الشئ بالذکر لا یدل علی نفی ما عداہ و لیس فی شئ من الروایات ما یدل علی الحصر فافھم۔ 1 ھ (اور اسی سے ان مختلف روایات میں تطبیق ہوتی ہے جو اہل علم سے اس نوشتہء الٰہی کا ذکر کردیا گیا اور کسی ایک چیز کے ذکر کی صراحت دوسری چیزوں کی نفی پر دلالت نہیں کرتی اور روایات میں کوئی ایسی بھی نہیں ہے جو کسی ایک کے حصہ پر دلالت کرے) ۔ قیدیوں کے احکام : اگر کافر قید میں آجائیں تو امیر المومنین کو ان کے بارے میں کن باتوں کا اختیار ہے۔ اس میں چار چیزوں کا ذکر آتا ہے۔ یہاں سورة انفال میں قتل کرنے اور فدیہ لینے کا ذکر ہے اور سورة محمد میں مزید دو باتوں کا ذکر ہے۔ (فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً ) احسان کر کے چھوڑ دینا یا اپنے قیدیوں سے مبادلہ کرلینا یعنی اپنے قیدی لے کر ان کے قیدی چھوڑ دینا۔ ان چار چیزوں میں سے اب کس کس چیز کو اختیار کرنے کی اجازت ہے اس میں حضرات فقہاء کرام نے کچھ تفصیل لکھی ہے۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ امیر المومنین کو اختیار ہے۔ چاہے تو کافر قیدیوں کو قتل کرے اور چاہے تو انہیں ذمی بنا کر دارالاسلام میں رکھ لے۔ البتہ مشرکین میں جو اہل عرب ہوں اور جو مرتد ہوں ان کو ذمی بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ اب رہی یہ بات کہ آیا مسلمانوں کو چھڑانے کے لیے بطور مبادلہ کے کافر قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے ؟ تو حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے اس کو جائز قرار نہیں دیا اور حضرات صاحبین اور حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ ایسا کرنا درست ہے اور کافر قیدیوں کو مال لے کر چھوڑ دینا جائز ہے یا نہیں اس کے بارے میں حنفیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ جائز نہیں۔ البتہ امام محمد (رح) نے سیر کبیر میں لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کو مال کی حاجت ہو تو ایسا بھی کرسکتے ہیں اور بالکل ہی بطور احسان کے چھوڑ دینا نہ قیدیوں کا مبادلہ ہو اور نہ مال لیا جائے اور نہ ذمی بنایا جائے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ حضرت امام شافعی (رح) اس کو بھی جائز کہتے ہیں۔ علامہ ابوبکر جصاص (رح) احکام القرآن ص 392 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ سورة برأۃ سورة محمد ﷺ کے بعد نازل ہوئی۔ سورة محمد میں جو من اور فداء کی اجازت ہے اس کو سورة برأۃ کی آیات (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ ) اور (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) نے منسوخ کردیا۔ لہٰذا اب فداء اور مَن کی اجازت نہیں رہی۔ فوجب ان یکون الحکم المذکور فیھا ناسخا للفداء المذکور فی غیرھا۔
Top