Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا وہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کس طرح پیدا کیے گئے
ان آیات میں چار چیزوں کی طرف نظر کرنے کی ترغیب دی ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بلند کیے گئے اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح کھڑے کیے گئے اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بچھائی گئی۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں جنت کی نعمتوں کو بیان فرمایا تو اہل کفر کو اس پر تعجب ہوا، انہوں نے اس کو جھٹلا دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ اولاً اونٹوں کا ذکر فرمایا، اہل عرب کے سامنے ہر وقت اونٹ رہتے تھے اس سے کام لیتے تھے اور باربرداری اور کھیتی کے کام میں لاتے تھے۔ اس سے بہت سے فوائد اور منافع حاصل ہوتے ہیں، پھر صابر بھی بہت ہے۔ خارمی خوردو بارمی برد (کانٹے دار درخت کھاتا ہے اور بوجھ اٹھاتا ہے) اور ایک ہفتے کا پانی پی لیتا ہے اور فرمانبرداری اس قدر ہے کہ اگر ایک بچہ بھی نکیل پکڑ کر چلے تو اس کے ساتھ چل دیتا ہے پھر اس کی خلقت عجیب ہے۔ اردو کا محاورہ ہے ” اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی، یاروں کی پہلے گردن ہی دیکھ لو “۔ خاص طور سے اونٹ ہی کی خلقت کو کیوں بیان فرمایا گیا جبکہ اس سے بڑا جانور (فیل) یعنی ہاتھی بھی موجود ہے اس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کے اولین مخاطبین یعنی عرب کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی مال بھی وہی تھا۔ ثانیاً ارشاد فرمایا : ﴿ وَ اِلَى السَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْٙ0018﴾ (اور کیا آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بلند کیا گیا) ۔ ثالثاً فرمایا : ﴿ وَ اِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْٙ0019﴾ (اور کیا پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھتے کیسے کھڑے کیے) ۔ رابعاً فرمایا : ﴿ وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْٙ0020﴾ (اور کیا نہیں دیکھتے زمین کی طرف کیسے بچھائی گئی) ۔ یہ سب عجائب قدرت ہیں نظروں کے سامنے ہیں جس ذات پاک نے ان چیزوں کو پیدا فرمایا اس کو اس پر بھی قدرت ہے کہ وہ جنت کو اور جنت کی نعمتوں کو پیدا کر دے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ ان چیزوں کو دیکھ کر قدرت الٰہیہ پر استدلال نہیں کرتے تاکہ اس کا بعث پر قادر ہونا سمجھ لیتے اور تخصیص ان چار چیزوں کی اس لیے ہے کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے رہتے تھے، اس وقت ان کے سامنے اونٹ ہوتے تھے اور اوپر آسمان اور نیچے زمین اور اطراف میں پہاڑ، اس لیے ان علامات میں غور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا اور جب کہ یہ لوگ باوجود قیام دلائل کے غور نہیں کرتے۔ زمین کے لیے جو لفظ سطحت فرمایا ہے یہ زمین کے پھیلا ہوا ہونے پر دلالت کرتا ہے اس سے زمین کے کرہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ کرہ ہوتے ہوئے بھی اس پر بسنے والی چیزوں کے لیے پھیلا ہوا جسم معلوم ہوتی ہے۔
Top