بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
آپ کو ایسی چیز کی خبر پہنچی ہے جو چھا جانے والی ہے۔
یہاں سے سورة الغاشیہ شروع ہو رہی ہے۔ الغاشیہ سے قیامت مراد ہے جو غشہ غشی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ قرآن مجید میں قیامت کو بہت سے ناموں سے موسوم فرمایا ہے جن میں ایک نام الغاشیہ بھی ہے، اس کا معنی ہے ” ڈھانک دینے والی “ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ قیامت کو الغاشیہ اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں پر اپنی سختیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اس کے دل ہلا دینے والے احوال و اھوال (یعنی خوف زدہ کردینے والے حالات ہر طرف سے گھیر لیں گے) ۔ ﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِؕ001﴾ میں جو لفظ ھَلْ ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ قد کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس قیامت کی خبر آچکی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ھل اپنے معروف معنی میں ہے یعنی استفہام کے لیے لایا گیا ہے اور یہ استفہام تشویش کے لیے ہے پہلے استفہام سے شوق دلا دیا تاکہ سننے والا آئندہ بیان ہونے والے مضامین کو دھیان سے سنے پھر وہاں کے احوال بیان فرمائے ہیں۔
Top