Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 104
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا انہیں علم نہیں اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ ھُوَ : وہ يَقْبَلُ : قبول کرتا ہے التَّوْبَةَ : توبہ عَنْ : سے۔ کی عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيَاْخُذُ : اور قبول کرتا ہے الصَّدَقٰتِ : صدقات وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
کیا ان لوگوں نے نہیں جانا کہ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات قبول فرماتا ہے اور بلاشبہ اللہ خوب زیادہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
پھر فرمایا (اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ ) (الآیۃ) اس کا شان نزول بتاتے ہوئے (درمنثور ص 275 ج 2) میں لکھا ہے کہ جب ان حضرات کی توبہ قبول ہوگئی جنہوں نے اپنی جانوں کو ستونوں سے باندھ دیا تھا تو وہ پھر بےتکلف مسلمانوں کے ساتھ رہنے سہنے لگے اس پر منافقین نے کہا کہ کل تک تو یہ لوگ اسی حال میں تھے جس میں ہم ہیں نہ ان سے کوئی بات کرتا تھا اور نہ ان کے پاس کوئی شخص بیٹھتا تھا آج کیا ہوا (کہ سب مسلمان ان سے خوش ہیں اور ہم سے بدستور ناراض ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ ) نازل فرمائی (کیا انہیں معلوم نہیں کہ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات قبول فرماتا ہے اور بلاشبہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے رحم کرنے والا ہے) اس میں منافقوں 1 ؂ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب توبہ سے گناہ معاف ہوگیا تو صدقہ کے آلہء تطہیر و تزکیہ ہونے کا کیا معنی ؟ حکیم الامت قدس سرہٗ نے بیان القرآن میں اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتا ہے لیکن گاہے اس کی ظلمت و کدورت کا اثر باقی رہ جاتا ہے اور گو اس پر مواخذہ نہیں لیکن اس سے آئندہ اور گناہوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے پس صدقہ سے خصوصاً بوجہ حدیث الصدقۃ تطفی غضب الرب اور دیگر اعمال صالحہ سے عموماً یہ ظلمت اور کدورت مندفع ہوجاتی ہے۔ کو جواب دے دیا کہ تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ کل تک یہ لوگ ہماری طرح سے تھے آج ان کی شان ہی اور ہے اور ہم سے مختلف ہیں اس میں تعجب اور اعتراض کی کوئی بات نہیں ہے یہ پہلے سے مومن تھے اور اپنی بےعذر والی غیر حاضری پر نادم بھی ہوئے اور توبہ بھی کی اور صدقہ بھی دیا، اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے طالب ہوئے اور تم وہی اپنے نفاق پر جمے ہوئے ہو تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اپنے کیے پر ندامت نہیں تو ان کے جیسے کس طرح ہوسکتے ہو۔
Top