Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ
: بیزاری (قطعِ تعلق)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَرَسُوْلِهٖٓ
: اور اس کا رسول
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جنہوں نے
عٰهَدْتُّمْ
: تم سے عہد کیا
مِّنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکین
اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کی طرف برأت ہے جن سے تم نے عہد کیا۔
سورة توبہ مدینہ میں نازل ہوئی اس میں ایک سو انتیس آیات اور سولہ رکوع ہیں سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ اس کا دوسرا نام سورة برأت بھی ہے اس میں کافروں سے برأت کا اعلان ہے اس لیے اس کو سورة برأت کہا جاتا ہے اور غزوہ تبوک کے موقعہ پر جو صحابی پیچھے رہ گئے تھے ان کی توبہ کا بھی اس میں ذکر ہے اس لیے دوسرا نام بھی معروف ہوگیا۔ یہ سورت مصحف عثمانی کی ترتیب میں سورة الانفال اور سورة یونس کے درمیان ہے۔ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہ لکھنے کی وجہ : دیگر تمام سورتوں کے شروع میں بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھی ہے لیکن سورة برأت کے شروع میں نہیں ہے۔ جامع القرآن حضرت عثمان بن عفان ؓ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے سوال کیا کہ یہ کیا بات ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں ہے (یعنی جس کی آیات سو سے کم ہیں) سورة برأت سے پہلے رکھ دیا حالانکہ برأت ان سورتوں میں سے ہے جن کی آیات سو سے زیادہ ہیں اور آپ نے ان دونوں کو ملا بھی دیا اور مزید یہ کہا کہ ان کے درمیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں لکھی۔ اور ان دونوں کو ملا کر سبع طوال (یعنی لمبی سات سورتوں) میں شامل کردیا۔ ایسا کرنے کا کیا باعث ہے ؟ حضرت عثمان نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی آیت نازل ہوئی تھی تو آپ کا تبوں میں سے کسی کو بلا کر فرماتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں شامل کر دو جس میں فلاں فلاں مضمون ہے اور سورة انفال اس سورتوں میں سے ہے جو مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد شروع میں نازل ہوئیں اور سورة برأت ان سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور آپ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ سورة برأت سورة انفال کا حصہ ہے اور چونکہ دونوں کا مضمون ایک دوسرے کے مضمون سے ملتا جلتا تھا اس لیے میں نے دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں لکھی (کیونکہ نہ اس بات کا علم تھا کہ دونوں سورتیں مستقل ہیں اور نہ اس بات کی توضیح تھی کہ دونوں ایک ہی ہیں) اور میں نے ان کو ملا کر سبع طوال (یعنی سات لمبی سورتوں) میں شامل کردیا۔ (مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد چھ سورتیں تعداد آیات کے اعتبار سے خوب لمبی لمبی ہیں اور ان دونوں کا مجموعہ مل کر سات لمبی سورتیں ہوگئیں جن کو سبع طوال کہا جاتا ہے۔ (رواہ الترمذی فی ابواب التفسیر اوائل سورة التوبۃ) حضرت عثمان ؓ کے بیان سے معلوم ہوگیا کہ سورة انفال اور سورة برأت کو اس لیے ملایا گیا ہے کہ دونوں کا مضمون آپس میں ملتا جلتا ہے اور درمیان میں (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) اس لیے نہیں لکھی کہ واضح طور پر ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کی ارشاد فرمودہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے دونوں کا علیحدہ علیحدہ سورت ہونا معلوم ہوتا۔ قرآن مجید کی ترتیب یوں ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد اول سبع طوال یعنی سورة بقرہ اور سورة آل عمران اور سورة نساء اور سورة مائدہ اور سورة انعام اور سورة اعراف اور سورة انفال اور سورة توبہ کا مجموعہ ہے (ان کو سات لمبی سورتیں کہا جاتا ہے) ان کے بعد وہ سورتیں ہیں جنہیں مئین کہا جاتا ہے اور یہ وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کچھ زیادہ ہیں۔ پھر وہ سورتیں ہیں جنہیں مثانی کہا جاتا ہے۔ یہ سورتیں سورة یونس سے شروع ہوتی ہیں اور سورة حجرات سے لے کر ختم قرآن شریف تک جو سورتیں ہیں انہیں مفصل کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں بھی تفصیل ہے سورة حجرات سے سورة بروج تک طوال مفصل اور سورة الطارق سے سورة بینہ تک اوساط مفصل اور سورة زلزال سے لے کر سورة والناس تک قصار مفصل ہیں۔ 1 سورۃ توبہ کی ابتدا میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہ پڑھی جائے اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جب کوئی تلاوت کرنے والا سورة انفال پڑھے اور اسے ختم کر کے متصلاً ہی سورة برأت شروع کرے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھے۔ کیونکہ سورة برأت کا مستقل سورة ہونا یقینی نہیں ہے۔ اگر سورة برأت ہی سے تلاوت کی ابتداء کرنا ہو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے یا نہ پڑھے اس میں دو قول ہیں راجح قول یہی ہے کہ اس صورت میں بسم اللہ نہ پڑھے۔ امام شاطبی (رح) نے اپنے قصیدہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ و قال وَ مَھْمَا تَصِلْھا أو بَدَأتَ بَرَأۃً لِتَنْزِیْلِھَا بالسَّیْفِ لَسْتَ مُبَسْمِلَا اور جب برأت کی تلاوت کو انفال کے ساتھ ملاتے یا سورة برأت ہی سے تلاوت شروع کرے تو بسم اللہ نہ پڑھ کیونکہ یہ سورة تو تلوار کے ساتھ نازل ہوئی ہے) ۔ محقق ابن الجزری (رح) النشر میں لکھتے ہیں۔ لا خلاف فی حذف البسملۃ بین الانفال و برأۃ عن کل من بسمل بین السورتین و کذا فی الابتداء ببرأۃ علی الصحیح عند أھل الاداء۔ (اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انفال اور برأت کے درمیان بسم اللہ نہیں ہے اور اسی طرح قرأ کے نزدیک سورة برأۃ سے تلاوت کی ابتداء کی صورت میں بھی بسم اللہ نہیں ہے) ۔ اس کے بعد برأت سے تلاوت شروع کرنے کی صورت میں بعض قرأ سے بسم اللہ پڑھنے کا جواز نقل کیا ہے لیکن اس کو تسلیم نہیں کیا اور آخر میں لکھا ہے و الصحیح عند الائمہ اولی بالاتباع ونعوذ باللہ من شر الابتداء۔ (جو صحیح ہے وہی ائمہ کے نزدیک اتباع کے لائق ہے اور ابتداء کی شرارت سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں) حضرت امام شاطبی ؓ نے جو یہ فرمایا لِتَنْزِیْلِھَابِالسَّیْفِ لَسْتَ مُبَسْمِلَا یہ حضرت علی سے منقول ہے، علامہ ابن القاصح سراج القاری شرح شاطبیہ میں لکھتے ہیں : قال ابن عباس سالت علیاً ؓ لما لم تکتب فی برأۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال لأن بسم اللہ أمان و برأۃ لیس فیھا امان نزلت بالسیف۔ ا ھ (حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں میں نے حضرت علی ؓ سے سوال کیا کہ سورة برأت کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی تو انہوں نے فرمایا اس لیے کہ بسم اللہ تو امن کا پیغام ہے اور سورة برأت میں امان نہیں ہے وہ تو تلوار کے ساتھ نازل ہوئی ہے) ۔ 1 علامہ سیوطی نے الاتقان ص 65 میں قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اس طرح لکھی ہے کہ پہلے سبع طوال یعنی سات لمبی سورتیں ہیں جو سورة انفال اور سورة توبہ کو ملا کر (گویا دونوں کو ایک قرار دے کر) سورة توبہ پر ختم ہو رہی ہیں (ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ سورت مانا جائے تو سبع طوال میں نہیں آتی ہیں) سبع طوال کے بعد وہ سورتیں ہیں جنہیں مئتین کہا جاتا ہے (یہ ماءۃ کی جمع ہے) یہ وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو کے قریب یا سو سے زیادہ ہیں پھر ان کے بعد وہ سورتیں جنہیں مفصل کہا جاتا ہے۔ مفصل کی ابتداء کہاں سے ہے اس میں متعدد اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ سورة حجرات سے شروع ہو کر آخر قرآن تک جو سورتیں ہیں ان سب کا مجموعہ مفصل ہے یہی قول ہم نے اوپر تفسیر میں لکھ دیا ہے۔ مثانی کی انتہاء تو مفصل کی ابتداء سے معلوم ہوگئی۔ لیکن مثانی کی ابتداء کہاں سے ہے۔ اس کے بارے میں اکابر کے اقوال میں کوئی تصریح نہیں دیکھی۔ سورتوں کی مراجعت کرنے سے معلوم ہوا کہ مثانی کی ابتداء بظاہر سورة قصص سے ہونی چاہئے کیونکہ اس سے پہلی سورة میں ترانوے آیات اور اس میں اٹھاسی آیات ہیں (گو اس سے پہلے سورة حج میں اٹھہتر اور سورة نور میں چونسٹھ آیات گزر چکی ہیں) سورة قصص کے بعد عموماً وہ سورتیں ہیں جن کی آیات مئین والی سورتوں کی آیات سے کم ہی ہیں۔ البتہ درمیان میں سورة شعراء میں دو سو ستائیس اور سورة صافات میں ایک سو بیالیس آیات ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب میں آیات کی تعداد کی بجائے طول اور قصر کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ آیات کی تعداد کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ بات نہیں دیکھی گئی کہ ہر اگلی سورت پچھلی سورت کی آیات کے اعتبار سے چھوٹی ہو۔ پھر یہ طول اور قصر بھی تقریبی ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے تو ان حضرات کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جنہوں نے فرمایا ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے۔ یہ جو ہم نے عرض کیا کہ ترتیب سورت میں آیات کی تعداد کی بجائے طول اور قصر کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ بعض مرتبہ چھوٹی سورت میں آیات زیادہ ہوتی ہیں۔ (کمافی الصافات) اور بڑی سورت میں آیات کی تعداد کم ہوتی ہے (کمافی سورة الاحزاب فانھا اطول من الصافات وعددآیا تھا اقل منھا) ۔ اب ایک شق اور رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ سورة برأۃ کے درمیان سے کسی جگہ سے تلاوت کی ابتداء کرے تو جس طرح دوسری سورتوں کے درمیان سے تلاوت کی صورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں درست ہیں اسی طرح سورة برأۃ کے درمیان سے ابتداء کرنے کی صورت میں بسم اللہ پڑھنے نہ پڑھنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ محقق ابن الجزری ” النشر “ میں فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے بارے میں متقدمین کی کوئی نص نہیں دیکھی اور علی الاطلاق بہت سے اہل اداء نے سورتوں کے درمیان سے تلاوت شروع کرنے کی صورت میں جو دونوں باتوں کا اختیار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة برأت کے درمیان سے شروع کرنے کی صورت میں بھی دونوں صورتیں جائز ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ ابو الحسن سخاوی نے اپنی کتاب جمال القراء میں سورة برأت کے درمیان سے تلاوت کی ابتداء کرنے کی صورت میں بسم اللہ پڑھنے کا جواز لکھا ہے اور ابو اسحاق جعبری کا رجحان نہ پڑھنے کی طرف ہے۔ پھر آخر میں محقق ابن الجزری نے دونوں باتوں کی تائید کی ہے اور کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ گویا وہ بھی تخییر کے قائل ہیں۔ یعنی پڑھنا نہ پڑھنا دونوں کی گنجائش دی ہے۔ فائدہ : یہ جو بعض مصاحف میں سورة برأت کی ابتدا میں حاشیہ پر اعوذ باللہ من النار و من غضب الجبار و من شر الکفار لکھا ہوا ہے اور بہت سے حفاظ اس کے پڑھنے کو مستحب یا سنت سمجھتے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (کماذ کرہ فی الفتاوی الرشیدیۃ) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں آیات بالا کی تفسیر سمجھنے کے لیے یہ ذہن نشین کرلیا جائے کہ جس وقت سورة برأت نازل ہوئی ہے اس وقت کفار کی چار قسمیں تھیں۔ پہلی قسم کے تو وہ لوگ تھے جن سے مقام حدیبیہ میں 6 ھ میں معاہدہ ہوا تھا جبکہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعہ پر مشرکین نے آپ کو مکہ معظمہ میں داخل نہ ہونے دیا اور بڑی ردوکد کے بعد دس سال کے لیے صلح کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس صلح میں یہ تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ نہیں کرے گا اور نہ کوئی فریق کسی فریق کے حلیف پر حملہ آور ہوگا۔ پھر یہ واقعہ پیش آیا کہ قبیلہ بنی بکر نے (جو قریش کا حلیف تھا) رات کے وقت قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش مکہ نے بنی بکر کو ہتھیار دیئے اور اپنے جوان ان کی امداد کے لیے بھیجے۔ اس طرح سے قریش نے عہد شکنی کی کیونکہ بنی خزاعہ پر حملہ کرنے والوں کے مددگار بن گئے جو مسلمانوں کے حلیف تھے جب آنحضرت ﷺ کو قریش کی عہد شکنی کی خبر ملی تو آپ نے جنگ کی تیاری کی اور 8 ھ میں اپنے صحابہ کو لے کر مکہ معظمہ پہنچے اور مکہ معظمہ فتح ہوگیا۔ کافروں کا دوسرا فریق وہ تھا جن سے صلح کا معاہدہ ایک خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا وہ لوگ اپنے معاہدہ پر قائم تھے۔ نقض عہد نہیں کیا تھا جیسے قبیلہ بنی ضمرہ اور قبیلہ بنی مدلج (یہ دونوں قبیلے بنی کنانہ میں سے تھے) ان سے جتنی مدت کے لیے صلح ہوئی تھی سورة برأت کے نزول کے وقت اس کے اختتام میں چند ماہ باقی تھے۔ مشرکین کا تیسرا فریق وہ تھا جن سے کسی مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ ہوا تھا اور چوتھا فریق وہ تھا جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔ پہلا فریق : یعنی قریش مکہ جنہوں نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑ دیا تھا وہ تو کسی رعایت اور مہلت کے مستحق نہ تھے ان کو بلا مہلت ہی جزیرہ عرب سے نکال دینا یا قتل کردینا درست تھا لیکن پھر بھی اشہر الحرام کا زمانہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رعایت کی گئی کہ اشہر الحرام میں ان سے تعرض نہ کیا جائے اور اشہر الحرام گزر جانے کے بعد ان کے قتل کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ کفر سے توبہ کرلیں اور اسلام کے کام کرنے لگیں (جس میں نمازیں پڑھنا اور زکوٰتیں ادا کرنا سب سے زیادہ اہم ہے) تو نہ انہیں قتل کریں نہ قید کریں کیونکہ وہ اب اپنے ہوگئے۔ دوسرا فریق : وہ تھا جن سے کسی خاص میعاد کے لیے صلح کا معاہدہ کیا گیا تھا وہ اس پر قائم رہے نقض عہد نہ کیا تو ان کے بارے میں یہ حکم دیا (فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ ) کہ ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کرو کیونکہ عہد کی خلاف ورزی اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ جب مقابل فریق اپنا عہد پورا کر رہا ہے تو اہل ایمان تو بطور اولیٰ عہد پورا کرنے کا اہتمام کریں۔ یہ حکم قبیلہ بنی ضمرہ اور بنی مدلج کے متعلق تھا۔ اگر اہل ایمان نقض عہد کریں گے تو تقویٰ کے خلاف ہوگا۔ مومن کا کام ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اسی لیے آخر میں فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تقویٰ والوں کو پسند فرماتا ہے) ۔ تیسرا فریق : (جن سے کسی مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ ہوا تھا) اور چوتھا فریق (جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا) ان کے بارے میں سورة برأت کے شروع سے لے کر (وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) تک تین آیات میں اعلان فرمایا اور ان کو چار مہینے کی مدت دی گئی اور کافروں سے فرمایا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ سر زمین عرب میں چار مہینے چلو پھرو اور چار ماہ کے بعد بھی یہ نہ سمجھنا کہ جزیرۃ العرب سے چلے گئے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے آزاد ہوجاؤ گے تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ کافروں کو ضرور ذلیل کرے گا۔ الفاظ کا رخ تو ان لوگوں کی طرف ہے جن سے کوئی عہد تھا اور اس کی میعاد مقرر نہ تھی لیکن اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوگئے جن سے کچھ بھی معاہدہ نہ تھا۔
Top