Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنین پر اطمینان قلبی نازل فرمایا اور ایسے لشکر اتار دیئے جنہیں تم نہیں دیکھ رہے تھے، اور اللہ نے کافروں کو عذاب دیا اور یہ سزا ہے کافروں کی،
حنین میں فرشتوں کا نزول : مسلمانوں کو اول شکست ہوئی۔ اور ایسی شکست ہوئی کہ زمین ان کے لیے تنگ ہوگئی اور سبب اس کا وہی ہوا کہ بعض مسلمانوں نے کہہ دیا کہ آج تو ہم تعداد میں بہت ہیں شکست کا احتمال ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور رسول اللہ ﷺ پر سکینہ نازل فرمایا اور سکون و اطمینان کے ساتھ دو بارہ جنگ کرنے لگے جس سے دشمنوں نے شکست کھائی۔ قرآن مجید میں غزوۂ حنین کا ذکر کرتے ہوئے (وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا) بھی فرمایا (اور اللہ نے لشکر اتارے جنہیں تم نے نہیں دیکھا) صاحب معالم التنزیل (ص 281 ج 2) میں فرماتے ہیں یعنی : الملائکۃ قیل لا للقتال و لکن لتجبین الکفار و تشجیع المسلمین لأنہ یروی أن الملائکۃ لم یقاتلوا الایوم بدر (فرشتوں کا نزول بعض نے کہا قتال کے لیے نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ وہ کفار کو بزدل بنائیں اور مسلمانوں کو بہادر، کیونکہ مروی ہے کہ فرشتوں نے قتال صرف بدر میں کیا تھا) یعنی لشکروں سے فرشتے مراد ہیں۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ فرشتے جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ کافروں کو بزدل بنانے کے لیے اور مسلمانوں کو دلیر کرنے کے لیے نازل کیے گئے تھے۔ کیونکہ یہ بات روایت کی جاتی ہے کہ فرشتوں نے بدر کے موقعہ کے علاوہ اور کسی موقعہ پر قتال میں حصہ نہیں لیا۔ صاحب روح المعانی ص 75 ج 10 نے بھی (جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا) کی تفسیر فرشتوں سے کی ہے اور لکھا ہے کہ جمہور نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ فرشتوں نے بدر کے علاوہ کسی اور موقعہ پر قتال نہیں کیا وہ مومنین کے قلوب کی تقویت کے لیے اور مشرکین کے قلوب میں رعب ڈالنے کے لیے آئے تھے۔ پھر ایک قول یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قتال بھی کیا تھا لیکن آخیر میں لکھا ہے و لیس لہ سند یعول علیہ یعنی اس کی کوئی سند معتمد نہیں۔ فرشتوں کے اتارنے کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا (وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) کہ اللہ نے کافروں کو عذاب دیا (جو مقتول ہوئے اور قیدی بنے) (وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ ) اور یہ کافروں کی سزا ہے۔ (جو دنیا میں ہے) اور آخرت میں جو سزا ہے وہ دنیاوی سزا کے علاوہ ہے جو کفر پر مرے گا وہاں دائمی عذاب میں مبتلا ہوگا۔
Top