Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہو تو زمین پر بوجھل بن جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا والی زندگی پر راضی ہوگئے۔ سو دنیا والی زندگی آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑی سی ہے،
خروج فی سبیل اللہ کے لیے کہا جائے تو نکل کھڑے ہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے گا اور تمہارے بدلہ دوسری قوم کو لے کر آئے گا ! معالم التنزیل (ص 292 ج 2) میں لکھا ہے کہ آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَاقِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا) (الآیۃ) غزوہ تبوک میں شرکت کرنے کی ترغیب دینے کے لیے نازل ہوئی جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف کے حصار کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نے حکم دیا کہ اب رومیوں سے جہاد کرنے کے لیے چلو (خبر ملی تھی کہ رومی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے شام کی سرحد پر جمع ہوگئے ہیں) صوبہ شام اس وقت رومیوں کے زیر نگین تھا اور وہاں ہرقل کی حکومت تھی جو رومیوں کا بادشاہ تھا۔ آپ نے ارادہ فرمایا کہ ان سے وہیں چل کر مقابلہ کرلیا جائے اور دفاع کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب جہاد کے لیے جانا ہوتا تھا تو توریہ سے کام لیتے تھے (یعنی نام لے کر واضح طور پر نہیں بتاتے تھے کہ فلاں مقام پر جانا اور فلاں قوم سے جنگ کرنا ہے) یہ موقعہ ایسا تھا کہ پھل پک رہے تھے کھیتیاں تیار تھیں ان کے کاٹنے کا زمانہ تھا اور تنگدستی بھی چل رہی تھی۔ گرمی سخت تھی اور سفر دور کا تھا اور درمیان میں خوفناک میدان تھے اور دشمن بھی تعداد میں زیادہ تھا۔ آپ نے واضح طور پر مسلمانوں کو بتادیا کہ تبوک جانا ہے تاکہ دشمن سے مقابل ہونے کے لیے تیاری کرلیں۔ اس موقعہ پر آپ کا جہاد کے لیے حکم فرمانا بھاری پڑگیا اور مسلمانوں میں سستی اپنا اثر کرنے لگی، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اہل ایمان کو خطاب فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین پر بوجھل بن گئے، کیا آخرت کے بدلہ میں دنیا والی زندگی پر راضی ہوگئے حالانکہ دنیا والی زندگی آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑی سی ہے۔
Top