Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ
: اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی
فَقَدْ نَصَرَهُ
: تو البتہ اس کی مدد کی ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اِذْ
: جب
اَخْرَجَهُ
: اس کو نکالا
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
كَفَرُوْا
: جو کافر ہوئے (کافر)
ثَانِيَ
: دوسرا
اثْنَيْنِ
: دو میں
اِذْ هُمَا
: جب وہ دونوں
فِي
: میں
الْغَارِ
: غار
اِذْ
: جب
يَقُوْلُ
: وہ کہتے تھے
لِصَاحِبِهٖ
: اپنے س ا تھی سے
لَا تَحْزَنْ
: گھبراؤ نہیں
اِنَُّ
: یقیناً
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَنَا
: ہمارے ساتھ
فَاَنْزَلَ
: تو نازل کی
اللّٰهُ
: اللہ
سَكِيْنَتَهٗ
: اپنی تسکین
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَيَّدَهٗ
: اس کی مدد کی
بِجُنُوْدٍ
: ایسے لشکروں سے
لَّمْ تَرَوْهَا
: جو تم نے نہیں دیکھے
وَجَعَلَ
: اور کردی
كَلِمَةَ
: بات
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوا
: انہوں نے کفر کیا (کافر)
السُّفْلٰى
: پست (نیچی)
وَكَلِمَةُ اللّٰهِ
: اللہ کا کلمہ (بول)
ھِىَ
: وہ
الْعُلْيَا
: بالا
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اگر تم اس کے رسول کی مدد نہ کرو تو اللہ نے ان کی مدد کی ہے جب کہ ان کافروں نے نکال دیا تھا۔ جب کہ وہ دو آدمیوں میں سے ایک تھے۔ جب کہ وہ دونوں غار میں تھے۔ جب کہ وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے آپ پر اپنا سکینہ نازل فرمایا اور ایسے لشکروں کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کردی جو کفر اختیار کیے ہوئے تھے اور اللہ کی بات اونچی ہی ہے اور اللہ عزت والا ہے حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے رسول کی مدد فرمائی جب اپنے ساتھی کے ساتھ غار میں تھے : اللہ جل شانہٗ نے مسلمانوں سے یوں بھی خطاب فرمایا کہ اگر تم رسول کریم ﷺ کی مدد نہ کرو گے تو اس سے اللہ کو اور اللہ کے رسول کو اور اللہ کے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے رسول کی مدد فرمائی جب انہیں مکہ کے کافروں نے مکہ معظمہ سے نکال دیا اور وہ اپنے ساتھی کے ساتھ غار میں پہنچ گئے۔ اوّل تو دشمنوں کے درمیان سے صحیح سالم نکال دینا پھر غار ثور تک عافیت اور سلامتی کے ساتھ پہنچا دینا پھر جب دشمن غار کے منہ پر پہنچ گئے اس وقت بھی ان کی حفاظت فرمانا اور جو لوگ تلاش میں نکلے تھے ان کو ناکام واپس کردینا اور پھر غار ثور سے نکال کر پیچھا کرنے والے دشمنوں سے محفوظ فرما کر عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچا دینا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوا۔ یہ سفر ہجرت کے واقعات ہیں پورے سفر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ نے سفر کا ارادہ کیا تو حضرت علی ؓ کو اپنی جگہ پر لٹا دیا اور آپ حضرت ابوبکر ؓ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوگئے جب صبح ہوئی تو لوگوں نے حضرت علی ؓ کو آپ کی جگہ پایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھی کہاں ہیں اس پر انہوں نے لا عملی ظاہر کی، وہ لوگ آپ کو تلاش کرنے کے لیے چل دیئے۔ اور غار ثور کے منہ پر پہنچ گئے اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان میں سے اگر کوئی شخص اپنے قدموں کی طرف نظر کرے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا (لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا) (غمگین نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے) آپ نے تین دن غار ثور میں قیام فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ کے غلام عامر بن فہیرہ ؓ روزانہ رات کو دودھ لے جا کر پیش کردیتے تھے۔ دونوں حضرات اس کو پی لیتے تھے۔ تین دن گزارنے کے بعد مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئے اور دسویں دن قبا پہنچ گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ مکڑی نے غار کے دروازہ پر جالا بن دیا تھا۔ اسے دیکھ کر ان لوگوں نے سمجھا کہ اگر یہ حضرات اندر گئے ہوتے تو یہ جالا ٹوٹا ہوا ہوتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 543) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر اطمینان نازل فرمایا اور آپ کے قلب مبارک پر تسلی نازل فرمائی۔ آپ نے نہایت اطمینان کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ کو تسلی دی کہ غمگین نہ ہو بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ غار ثور کے ذکر کے ساتھ (وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا) بھی فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسول کی ایسے لشکروں کے ذریعہ سے مدد فرمائی جنہیں تم نے نہیں دیکھا۔ ان لشکروں سے کیا مراد ہے صاحب معالم التنزیل نے اس بارے میں تین قول لکھے ہیں۔ اوّل یہ کہ اس سے فرشتے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لیے بھیجے گئے تھے کہ کافروں کی آنکھوں کو پھیر دیں۔ اور ان کی نظریں آپ پر نہ پڑیں۔ دوم یہ کہ فرشتوں نے کفار کے دلوں پر رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے واپس ہوگئے۔ سوم یہ کہ خاص اسی موقعہ پر فرشتے نازل ہونا مراد نہیں ہے بلکہ بدر میں مدد کے لیے جو فرشتے آئے تھے وہ مراد ہیں۔ گویا (وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا) جملہ مستانفہ ہے جس میں بدر کے موقعہ پر جو مدد ہوئی تھی وہ یاد دلائی، پھر فرمایا (وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی) (اور اللہ نے کافروں کے کلمہ کو نیچا کردیا) اس سے کلمہ شرک مراد ہے جو قیامت تک کے لیے نیچا ہوگیا۔ شرک والے اہل ایمان کے مقابلہ میں کبھی سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتے، (وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا) (اور اللہ کا کلمہ ہی بلند ہے) حضرت ابن عباس نے فرمایا کلمۃ اللہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مراد ہے۔ یہ ہمیشہ سے بلند ہے اور بلند رہے گا۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ کافروں کے کلمہ سے ان کا وہ مشورہ مراد ہے جس میں انہوں نے طے کرلیا تھا کہ صبح ہونے پر آپ کو شہید کردیا جائے گا اور کلمۃ اللہ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ نصرت مراد ہے۔ (معالم التنزیل ص 296 ج 2) آیت کے ختم پر فرمایا (وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) کہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا ہے وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اسی کا ارادہ غالب ہے وہ حکیم بھی ہے اس کی طرف سے کبھی ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اہل ایمان مشکلات میں پھنس جاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ان مشکلات سے نجات دے دیتا ہے۔ اور اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ اہل ایمان کا ایمان مضبوط ترہو جائے اور پھر مشکلات و مصائب سے نہیں گھبراتے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے اہل ایمان کو بڑی بڑی مشکلات سے نجات دی ہے۔ فائدہ : اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ سفر ہجرت میں اور غار ثور میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے خادم خاص حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی تھے۔ اِذْ یَقُوْلُ صَاحِبِہٖ جو فرمایا اس سے حضرت ابوبکر ہی مراد ہیں۔ چونکہ قرآن مجید میں ان کے صاحب ہونے کی تصریح ہے اس لیے حضرات علماء نے فرمایا ہے کہ ان کی صحابیت کا منکر کافر ہوگا۔ روافض (قبحھم اللہ) جنہیں حضرت ابوبکر ؓ سے بغض ہے وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ غارثور میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ ہی تھے اور (لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا) کا خطاب انہیں کو تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ساتھ لیا، یار غار بنایا۔ انہوں نے پورے سفر میں خدمت کی تکلیفیں اٹھائیں، سواری کا انتظام کیا اپنے غلام کو روزانہ دودھ بھیجنے پر مامور کیا، ان کے بیٹے عبدالرحمن بن ابی بکر روزانہ رات کو حاضر ہوتے تھے اور مشرکین کے مشوروں سے مطلع کرتے تھے۔ یہ ساری محنت اور قربانی روافض کے نزدیک کوئی چیز نہیں (دشمن کو تو ہنر بھی عیب نظر آتا ہے) ان کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق ؓ العیاذ باللہ کافر تھے۔ ان کی بات سے رسول اللہ ﷺ پر حرف آتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کو ساتھ لیا اور اپنا رفیق سفر اور راز دار بنایا اور حضرت علی ؓ کو ساتھ نہ لیا جبکہ وہ مخلص مسلمان تھے۔ ان بغض رکھنے والوں کو اور کوئی بات نہ ملی تو یہ نکتہ نکالا کہ حضرت ابوبکر ؓ غار ثور پر کافروں کے پہنچنے سے گھبرا گئے۔ یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔ یہ امور طبعیہ میں سے ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے جب ان کے سامنے جادو گروں نے لاٹھیاں ڈالیں اور وہ سانپ بن گئیں تو ان کے جی میں خوف کا احساس ہوا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اس سے پہلے ان کی لاٹھی کو سانپ بنا کر پھر سانپ کی لاٹھی بنا کر دکھا دیا تھا اور جب فرعون کو تبلیغ کرنے کے لیے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا (لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی) اس سب کے باوجود جب جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں کی صورت میں نظر آئیں تو طبعی طور پر خوف محسوس کرنے لگے۔ یہ خوف طبعی تھا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بھی غار ثور کے منہ پر دشمنوں کے پہنچنے سے طبعی طور پر فکر لا حق ہوگیا تو اس میں کون سے اشکال و اعتراض کی بات ہے ؟ روافض یوں بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انزال سکینہ کا ذکر فرماتے ہوئے (فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ ) فرمایا علیھما نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر سکینہ نازل نہیں ہوئی۔ یہ بھی ان لوگوں کی ضلالت اور جہالت کی بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر بلا واسطہ سکینہ نازل فرمائی اور حضرت ابوبکر ؓ کو نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے تسلی دی آپ نے لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فرمایا مَعَنَا میں جو ضمیر جمع متکلم کی ہے (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے) روافض اس کو نہیں دیکھتے اور عَلَیْہِ کی ضمیر کو دیکھتے ہیں۔ اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ عَلَیْہِ کی ضمیر میں دونوں احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مرجع رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہو۔ اور دوسرا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف ضمیر راجع ہو جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کو اختیار فرمایا ہے۔ یہ بھی درست ہے بلکہ اقرب ہے کیونکہ قریب ترین مرجع صاحبہ ہے اور یہ احتمال اس لیے بھی اقرب ہے کہ حضرت صدیق اکبر ہی کو فکر لا حق ہوئی تھی جسے فکر لاحق ہو انزال سکینہ اسی پر ہونا چاہئے۔ یہ بالکل قرین قیاس ہے۔ رسول اللہ ﷺ تو بہت ہی مطمئن تھے اور آپ کو پہلے ہی سے سکینہ حاصل تھا۔ ورنہ گھبراہٹ کا الزام رسول اللہ ﷺ پر آجاتا ہے۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا فکر مند ہونا بزدلی کی وجہ سے اور اپنی جان کی وجہ سے نہیں تھا انہیں رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کی حفاظت کا خیال ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا ان اقتل فانا رجل واحد و ان قتلت ھلکت الامۃ (اگر میں مقتول ہوگیا تو میں ایک آدمی ہوں اور اگر آپ کی ذات مبارک پر حملہ کردیا تو پوری امت ہلاک ہوجائے گی) ۔ درمنثور (ص 241 ج 2) میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار ثور میں پہنچنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے خیال سے کبھی آگے چلتے تھے اور کبھی پیچھے اور کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں، اور مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو مجھے پہنچ جائے آپ محفوظ اور صحیح سالم رہیں۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اس خیال سے کہ دشمنوں کو نشان ہائے قدم کا پتہ نہ چل جائے آنحضرت ﷺ کو اپنے اوپر اٹھا کر انگلیوں کے بل چلے یہاں تک کہ ان کی انگلیاں چھل گئیں۔ پھر جب غار ثور میں پہنچے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ باہر تشریف رکھیں، میں پہلے اندر داخل ہوتا ہوں اگر کوئی تکلیف دہ صورت حال پیش آئے تو مجھ ہی پر گزر جائے آپ محفوظ رہیں گے اس کے بعد پہلے خود اندر گئے غار کو صاف کیا اس میں جو سوراخ تھے اپنا کپڑا پھاڑ پھاڑ کر انہیں بند کرتے رہے ایک سوراخ رہ گیا جس کا منہ بند کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ملا لہٰذا انہوں نے اس پر ایڑھی لگا دی اور آنحضرت سرور عالم ﷺ کو اندر بلا لیا۔ آپ تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر ؓ کی گود میں سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو سوراخ کے اندر سے سانپ نے ڈس لیا۔ لیکن انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں آپ کی آنکھ نہ کھل جائے سوراخ کے منہ سے نہ تو پاؤں ہٹایا اور نہ ذرا سی حرکت کی۔ تکلیف کی وجہ سے ان کے آنسو بہنے لگے جو رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور پر گرگئے۔ آنسو گرنے سے آپ کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے فرمایا کہ ابوبکر کیا بات ہے ؟ عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے تو کسی نے ڈس لیا ہے۔ آپ نے اپنا لعاب مبارک ڈال دیا جس کی وجہ سے ان کی تکلیف جاتی رہی۔ (درمنثور ص 241 ج 2 و مشکوٰۃ المصابیح ص 556) اس جاں نثاری اور فدا کاری کو دیکھو اور روافض کی اس جاہلانہ بات کو دیکھو کہ حضرت ابوبکر ؓ مسلمان ہی نہیں تھے۔ (العیاذ باللہ) روافض یہ بھی کہتے ہیں کہ لِصَاحِبِہٖ سے ساتھی ہونا مراد ہے صحابی ہونا نہیں۔ یہ بھی ان کی جہالت کی بات ہے۔ صحابی اسی کو تو کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو بحالت ایمان دیکھ لے اور ایمان پر اس کی موت ہوجائے۔ سورة الفتح میں شرکاء حدیبیہ کی تعریف کرتے ہوئے جو فرمایا ہے۔ (لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ ) اس میں حضرت ابوبکر ؓ کے مومن ہونے کی بھی شہادت ہے اور سکینہ نازل ہونے کی بھی، بیعت حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓ نے بھی بیعت کی تھی اگر انزال سکینہ ایمان کے لیے شرط ہے تو حدیبیہ کے تمام حاضرین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سکینہ نازل فرمانے کی خبر دی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔ لیکن روافض نہ اللہ سے راضی ہیں نہ اللہ کے رسول سے، حضرت ابوبکر ؓ کے کفر کے قائل ہیں اور انہیں یہ فکر نہیں کہ ہمیں خود مسلمان ہونا چاہئے۔ قرآن کا منکر اپنے ایمان کی فکر تو کرے۔ جسے شقاوت گھیر لے اور جس پر گمراہی مسلط ہوجائے اسے کہاں سے ہدایت نصیب ہوگی۔ (فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ) (پس بیشک ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں لیکن دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں) حضرت عمر ؓ کا ارشاد سنیے۔ ان کے سامنے کسی نے کہہ دیا کہ آپ ابوبکر ؓ سے افضل ہیں تو وہ اس پر رونے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ابوبکر ؓ کی ایک رات اور ایک دن عمر ؓ کے تمام اعمال سے بہتر ہے۔ رات تو یہی غار ثور والی جس کا ذکر اوپر ہوا اور دن وہ جب کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی تو عرب کے بعض قبائل مرتد ہوگئے ان میں سے بعض نے کہا ہم نماز پڑھیں گے زکوٰۃ نہ دیں گے اور بعض نے کہا نہ نماز پڑھیں گے نہ زکوٰۃ دیں گے۔ حضرت ابوبکر نے ان سے جہاد کا اعلان فرما دیا۔ میں خیر خواہ بن کر ان کی خدمت میں آیا اور میں نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ لوگوں کو مانوس رکھئے اور نرمی اختیار فرمایئے انہوں نے جواب میں فرمایا کہ تم جاہلیت کے زمانہ میں بڑے بہادر تھے اسلام میں بزدل بن گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ وحی آنا ختم ہوگیا۔ اللہ کی قسم اگر ایک رسی بھی رسول اللہ ﷺ کو زکوٰۃ کی مد میں دیتے تھے اور اسے روک لیں گے۔ تب بھی ان سے جنگ کروں گا، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر ہم نے ان کے ساتھ قتال کیا۔ اللہ کی قسم ان کی رائے صحیح تھی ان کا یہ دن بھی ایسا ہے کہ میرے سارے اعمال اس کے برابر نہیں ہوسکتے۔ (درمنثور ص 242 ج 3) روافض نے یہ طریقہ نکالا ہے کہ جب ان سے کوئی مسلمان حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ایمان کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو فوراً کہہ دیتے ہیں ہم تو انہیں مسلم مانتے ہیں یہ بھی تقیۃً کہتے ہیں اور تقیہ میں بھی تقیہ کرتے ہیں کیونکہ مسلم کہہ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ظاہری اعتبار سے انہوں نے اسلام کے اعمال قبول کرلیے تھے۔ یہ لوگ انہیں مومن کہنے کے لیے تیار نہیں۔ مومن کا لفظ اپنے لیے ہی الاٹ کر رکھا ہے۔ روافض اپنی اہواء نفسانیہ کے پابند ہیں جو یہود کے سکھانے سے ان میں رچ بس گئی ہیں۔ اعاذ اللہ تعالیٰ الامۃ من خرافاتھم۔
Top