Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 6
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر اَحَدٌ : کوئی مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین اسْتَجَارَكَ : آپ سے پناہ مانگے فَاَجِرْهُ : تو اسے پناہ دیدو حَتّٰي : یہانتک کہ يَسْمَعَ : وہ سن لے كَلٰمَ اللّٰهِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر اَبْلِغْهُ : اسے پہنچا دیں مَاْمَنَهٗ : اس کی امن کی جگہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دیجیے۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
پھر فرمایا (وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ) (اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے) علامہ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی کافر حربی امان طلب کرے تو اسے امان دینا جائز ہے۔ وہ امان طلب کر کے مسلمانوں کے پاس آئے، اللہ کا کلام سنے، توحید کو سمجھے نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے دلائل معلوم کرے تو اس کے لیے ایسا موقعہ فراہم کیا جائے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی کافر ہم سے دلائل توحید کا اور دلائل رسالت کا مطالبہ کرے تاکہ وہ سمجھنے کے بعد دونوں باتوں کو مان لے تو ہمارے ذمہ واجب ہوگا کہ پوری طرح حجت قائم کریں اور توحید و رسالت کو واضح طور پر بیان کریں اور جب کوئی شخص ہم سے توحید اور رسالت کے دلائل طلب کرے تو دلائل بیان کرنے اور حجت قائم کرنے سے پہلے اس کو قتل کرنا جائز نہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ (ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ) سے معلوم ہوا کہ امام المسلمین پر واجب ہے کہ جو کوئی حربی امان لے کر آئے اس کی حفاظت کرے تاکہ کوئی شخص اسے قتل نہ کرے اور کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جو لوگ اہل ذمہ ہیں امام المسلمین کے ذمہ ان کی حفاظت واجب ہے تاکہ کوئی مسلمان ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ کافر حربی کو واپس ان کی جائے امن پہنچانے کا جو حکم ہے اس سے یہ مستنبط ہوا کہ کافر حربی کو دارالاسلام میں مستقل طور پر قیام نہ کرنے دیا جائے۔ اس میں حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر ایک سال دارالاسلام میں رہ گیا تو ذمی ہوجائے گا اور اہل ذمہ کے احکام اس پر نافذ ہوں گے جزیہ بھی مقرر کردیا جائے گا۔ (احکام القرآن ص 84۔ 83 ج 3) 1 ؂ اہل عرب ان مہینوں میں قتال نہیں کرتے تھے اور اسلام کے ابتدائی دور میں بھی ان میں قتال کرنا ممنوع تھا۔ 12 پھر فرمایا (ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ ) یہ حکم اس وجہ سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں جانتے (کہ اسلام کیا ہے اور دعوت اسلام کی کیا حقیقت ہے اور اسلام قبول کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ) فلا بد من اعطاءھم الامان حتی یسمعوا اویفھموا الحق (پس انہیں امان دینا ضروری ہے تاکہ وہ سن لیں یا حق کو سمجھ لیں) ۔ (مدارک التنزیل ص 117 ج 2) فائدہ : یوم الحج الأکبر جو فرمایا ہے اس سے ایام حج مراد ہیں۔ خاص کر وہ ایام جن میں منیٰ میں قیام ہوتا ہے۔ لفظ یوم کو بطور جنس لایا گیا ہے۔ اور الحج الأکبر سے کیا مراد ہے ؟ حضرت زہری شعبی اور عطا نے فرمایا کہ اس سے حج مراد ہے کیونکہ عمرہ حج اصغر ہے اور حج، حج اکبر ہے حج اکبر کا وہ معنی جو مشہور ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو یہاں وہ معنی مراد نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ جمعہ کے دن حج ہو تو اس کی فضیلت دوسرے حجوں سے زیادہ ہے یا نہیں ؟ بعض روایات سے اس کی فضیلت عام حجوں سے ستر گنا زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ملاعلی قاری (رح) نے اس بارے میں ” الحظ الا وفر فی الحج الاکبر “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔
Top