Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات صرف فقراء کے لیے اور مساکین کے لیے اور ان کارکنوں کے لیے ہیں جو صدقات پر متعین ہیں اور ان لوگوں کے لیے ہیں جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو اور گردنوں کے چھڑانے میں، اور قرض داروں کے قرضہ میں اور اللہ کے راستہ میں، اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ حکم اللہ کی طرف کیا ہوا ہے اور اللہ علیم ہے اور حکیم ہے۔
زکوٰۃ کے مصارف کا بیان صدقات سے یہاں زکوٰۃ مفروضہ مراد ہے اور اس کو جمع اس لیے لایا گیا کہ زکوٰۃ متعدد اموال پر واجب ہوتی ہے۔ چاندی، سونا، مال تجارت، اونٹ، گائے بکریاں، ان سب پر زکوٰۃ فرض ہے۔ بشرطیکہ نصاب پورا ہو۔ آیت شریفہ میں زکوٰۃ کے مستحقین کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں۔ اور لفظ اِنَّمَا سے آیت کو شروع فرمایا ہے جو حصر پر دلالت کرتا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ مستحق زکوٰۃ ان لوگوں کے علاوہ اور کوئی نہیں جن کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے مال زکوٰۃ میں سے عطا فرمانے کا سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے اموال کے بارے میں نبی یا غیر نبی کسی کا فیصلہ بھی منظور نہیں فرمایا، بلکہ خود ہی فیصلہ فرمایا اور آٹھ مصارف متعین فرما دیئے۔ اگر تو ان آٹھ مصارف میں سے ہے تو میں دے سکتا ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 161) اول تو فقراء کو زکوٰۃ کا مستحق بتایا اور اس کے بعد مساکین کا مستحق ہونا بیان فرمایا۔ فقراء فقیر کی جمع ہے اور مساکن، مسکین کی جمع ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ موجود ہو مگر نصاب زکوٰۃ سے کم ہو اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ مال زکوٰۃ کا مستحق ہونے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں فقیر اور مسکین دونوں ہی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں البتہ بعض دیگر مسائل میں فرق کا اعتبار کیا گیا ہے مثلاً کسی نے وصیت کی کہ میرا اتنا مال مسکینوں کو دے دیا جائے تو یہ مال مساکین کو ملے گا فقراء کو نہیں ملے گا۔ اور ایک فرق اور بھی ہے اور وہ یہ کہ فقیر کو سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ جبکہ اس کے پاس کھانے کو ایک دن کی خوراک موجود ہو اور تن ڈھکنے کو کپڑا بھی ہو اور مسکین کو سوال کرنے کی اجازت ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ مال کی وہ کتنی مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا جائز نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کچھ موجود ہو اس کو سوال کرنا درست نہیں ہے (رواہ ابو داؤد ص 230 ج 1) اور مسکین بھی ضرورت پوری کرنے کے لیے وقتی طور پر سوال کرلے اس کو عادت نہ بنائے جب مانگنے کی عادت پڑجاتی ہے تو مسکین، مسکین نہیں رہتا۔ وہ بہت سے مالداروں سے بھی مال میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور فقر و مسکنت کی حدود سے نکل کر بھی زکوٰۃ اور دیگر صدقات لیتا رہتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صدقہ پیسے والے کے لیے اور قوت والے تندرست آدمی کے لیے حلال نہیں ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صدقات میں مالدارکا اور تندرست کا جو کمائی کرسکتا ہو کوئی حصہ نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 161) جو لوگ زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان میں تیسرے نمبر پر (الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا) کا ذکر فرمایا۔ عاملین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں امیر المومنین صدقات اور عشر وصول کرنے پر مقرر کر دے۔ ان لوگوں کو ان کی مشغولیت کی وجہ سے صدقات میں سے اتنا مال دے دے جو ان کی محنت اور عمل کی حیثیت کے مطابق ہو نیز جو لوگ ان کے ماتحت کام کرنے والے ہوں ان کی تنخواہیں بھی ان کی محنت کے انداز سے دے دی جائیں۔ البتہ فقہاء نے یہ فرمایا ہے کہ جو مال وصول ہو اس کے نصف تک عاملین اور ان کے معاونین کی تنخواہیں دی جاسکتی ہیں۔ نصف سے زائد مال نہ دیا جائے۔ مصارف زکوٰۃ بتاتے ہوئے چوتھے نمبر پر (مُؤَلَّفَۃِ الْقُلُوْبِ ) کو ذکر فرمایا ان کے بارے میں ہم انشاء اللہ آئندہ صفحات میں کلام کریں گے۔ مصارف زکوٰۃ بتاتے ہوئے پانچویں نمبر پر (وَ فِی الرِّقَابِ ) فرمایا۔ رقاب، رقبہ کی جمع ہے۔ یہ لفظ مملوک کے لیے بولا جاتا ہے۔ جس کسی شخص کی ملکیت میں کوئی غلام ہو اور وہ اس غلام کو مکاتب بنا دے یعنی یوں کہہ دے کہ تو اتنا مال دیدے تو آزاد ہے۔ اسے مکاتب کہتے ہیں جب کسی آقا نے اپنے غلام کو مکاتب بنا دیا اور اب اسے اپنی آزادی کے لئے مال کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آقا کو مال دے کر آزاد ہوجائے تو اس مکاتب کو زکوٰۃ کے مال سے دینا جائز ہے۔ چھٹے نمبر پر (اَلْغَارِمِیْنَ ) فرمایا۔ یہ غارم کی جمع ہے اس سے وہ لوگ مراد ہیں۔ جن کے ذمہ قرض ہو اور ادائیگی کا انتظام نہ ہو۔ اگرچہ خود لوگوں پر ان کے قرضے ہوں لیکن ان کو وصول کرنے سے عاجز ہوں، ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کا مال دیاجا سکتا ہے۔ فتاویٰ عالم گیری (ص 188 ج 1) میں میں لکھا ہے کہ قرض دار کو زکوٰۃ دینا تاکہ اس کا قرضہ ادا ہوجائے عام فقراء کو دینے سے اولیٰ ہے، البحرا لرائق میں لکھا ہے کہ جس آدمی پر قرضہ ہو اس کی ملکیت میں اتنا مال نہ ہو جس سے قرضہ ادا کرنے کے بعد بقدر نصاب مال بچ جائے۔ اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے 1 ھ۔ بہت سے لوگوں پر قرضے ہوتے ہیں لیکن مال بھی پاس ہوتا ہے اس مال سے قرضے ادا کردیں تو قرضے ادا ہو کر بھی بقدر نصاب بلکہ اس سے بھی زیادہ مال بچ سکتا ہے ایسے لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ لوگوں کو یہ بتا کر کہ ہم مقروض ہیں زکوٰۃ لیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے اور نہ ان کو دینا جائز ہے۔ مستحقین زکوٰۃ کو بیان فرماتے ہوئے ساتویں نمبر پر (وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) فرمایا۔ فی سبیل اللہ سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں امام ابو یوسف نے فرمایا کہ اس سے وہ حضرات مراد ہیں جو جہاد کرنے کے لیے نکلے تھے۔ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور ان کے پاس خرچ نہیں ہے۔ کھانا پینا بھی ہے اور وطن بھی پہنچنا ہے۔ ان کو زکوٰۃ کا مال دے دیا جائے۔ امام محمد نے فرمایا ہے کہ فی سبیل اللہ سے حجاج مراد ہیں جو قافلہ سے بچھڑ گئے اور ان کے پاس مال نہیں ہے اور انہیں خرچ کرنے کے لیے اور گھر پہنچنے کے لیے پیسہ کی ضرورت ہے۔ اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ اس سے طالب علم مراد ہیں جو دینی علوم کے حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور صاحب بدائع نے فرمایا ہے اس سے وہ سب لوگ مراد ہیں جو کسی بھی صورت میں اللہ کی اطاعت میں اور نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ بشرطیکہ وہ محتاج ہوں۔ (بحر الرائق ص 260 ج 2) مستحقین زکوٰۃ بتاتے ہوئے آٹھویں نمبر پر (وَابْنِ السَّبِیْلِ ) فرمایا۔ ابن السبیل عربی زبان میں مسافر کو کہتے ہیں جو مسافر ضرورت مند ہے اس کے پاس سفر میں مال موجود نہیں ہے۔ اسے زکوٰۃ کا مال دیا جاسکتا ہے اگرچہ اس کے گھر میں کتنا ہی مال ہو۔ جو لوگ غازیوں کی جماعت سے بچھڑ گئے یا حجاج کے قافلہ سے علیحدہ ہوگئے حاجت مندی کی وجہ سے ان کو بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے جیسا کہ پہلے گزرا۔ ان کے احتیاج کو دیکھا جائے گا۔ ان کے گھروں میں اگرچہ خوب زیادہ مال ہو۔ البتہ یہ لوگ وقتی ضرورت سے زیادہ نہ لیں۔ (مُؤَلَّفَۃِ الْقُلُوْبِ ) وہ لوگ تھے جنہیں نبی اکرم ﷺ تالیف قلب کے لیے اموال زکوٰۃ میں سے عطا فرمایا کرتے تھے، یہ لوگ اپنے قبائل کے سردار اور ذمہ دار تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے ان کے قبیلوں کے اسلام قبول کرنے کی امید تھی۔ اور ان میں ایک قسم وہ تھی جنہیں دفع شر کے لیے مال عنایت فرماتے تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے تاکہ وہ دین اسلام پر جمے رہیں اور پختہ ہوجائیں۔ علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں مؤلفۃ القلوب کی یہ تین قسمیں لکھی ہیں۔ اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ کسی غیر مسلم کو آنحضرت ﷺ نے تالیف قلب کے لیے مال زکوٰۃ سے کچھ نہیں دیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کی تینوں قسموں کو اب اموال زکوٰۃ میں سے نہ دیا جائے ان کا حصہ ختم ہوگیا۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں۔ و قد سقط منھا المؤلفۃ قلوبھم لأن اللہ تعالیٰ اعز الاسلام و اغنی عنھم کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ ساقط ہوگیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دے دیا اور ان کی طرف سے بےنیاز فرما دیا۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ یہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک بعض شرائط سے اب بھی ان کو مال زکوٰۃ سے دیا جاسکتا ہے امیر المؤمنین مناسب جانے تو اب بھی ان کو اموال زکوٰۃ میں سے دے سکتا ہے۔ مسئلہ : جو شخص غنی ہو یعنی اس کی ملکیت میں اموال زکوٰۃ میں سے کسی بھی قسم کا کوئی نصاب ہو جس کا وہ مالک ہو یا ضرورت سے زیادہ اتنا سامان اس کی ملکیت میں ہو جو فروخت کر دے تو بقدر نصاب قیمت مل جائے اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ سادات کو زکوٰۃ دینے کا مسئلہ : بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ اگرچہ وہ فقراء اور مساکین ہوں بنی ہاشم سے حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبدالمطلب ؓ کی اولاد اور اولاد الاولاد مراد ہے۔ 1 ؂ اگر بنی ہاشم تنگدست حاجتمند ہوں زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ دیگر اموال سے ان کی مدد کردی جائے بہت سے لوگوں کو سادات کی غریبی دیکھ کر رحم تو آتا ہے لیکن زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے مال سے دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ مال میں زکوٰۃ تو 40؍1 ہی فرض ہے۔ باقی 40؍39 میں سے خرچ کرنا بھی تو ثواب ہے۔ لیکن اس کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے اور سادات کو اپنے اموال کا میل یعنی زکوٰۃ دینا چاہتے ہیں اس میں ان کی بےادبی بھی ہے اور اس سے زکوٰۃ بھی ادا نہ ہوگی۔ بعض سادات بھی اس مسئلہ کو سن کر دل میں کچھ تکدر لے آتے ہیں۔ اور بنی ہاشم کے لیے مال زکوٰۃ ناجائز ہونے کے قانون شرعی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے جد اعظم نبی اکرم ﷺ نے ہمارے اکرام و احترام کے لیے یہ قانون بنایا ہے کہ بنی ہاشم کو اموال کا میل کچیل نہ دیا جائے۔ جد امجد نے تو ان کی توقیع کی اور وہ رنجیدہ ہو رہے ہیں کہ ہمیں لوگوں کے اموال کا میل نہ ملا۔ دنیا حقیر ہے فانی ہے تھوڑی سی تکلیف اٹھا لیں اپنے شرف کو باقی رکھیں اور میل کچیل سے گریز کریں۔ اور یوں تکلیفیں تو سبھی کو آتی ہیں۔ صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں، اپنے نام کے ساتھ سید کا لفظ بڑھانے کو اور اپنے نسب کو اچھالنے کو تو تیار ہیں۔ لیکن اس نسب کی وجہ سے جو شرف دیا گیا ہے اسے اپنانے کو تیار نہیں۔ مسئلہ : اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ہے ایک زکوٰۃ ادا کرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ جب انہیں زکوٰۃ دے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ مال زکوٰۃ ہے بلکہ ہدیہ کہہ کر پیش کر دے اور اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کرلے اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ بشرطیکہ وہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین ہوں۔ لیکن اتنی بات یاد رہے کہ جن رشتہ داروں سے رشتہ ولادت ہے۔ ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں یعنی والدین کو، دادا دادی کو، نانا نانی کو، اور پڑ دادا اور پڑ دادی کو اور پرنانا پر نانی کو اور اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان کو دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی بھائیوں کو، بہنوں کو چچاؤں کو پھوپھیوں کو ماموؤں خالاؤں کو اور ان کی اولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ مسئلہ : شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے دے تو اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ مسئلہ : جو شخص اموال زکوٰۃ میں سے کسی نصاب کا مالک ہو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور یہ شخص شریعت کی اصطلاح میں غنی ہے اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جس غنی کو زکوٰۃ کا مال لینا اور دینا جائز نہیں۔ ضروری نہیں کہ اموال زکوٰۃ ہی میں سے کوئی چیز بقدر نصاب اس کی ملکیت میں ہو۔ بلکہ 1 ؂ و لا یدفع الی بنی ہاشم و ھم آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبدالمطلب کذا فی الھدایۃ و فی المشکوٰۃ ص 161 عن عبدالمطلب بن ربیعہ قال رسول اللہ ﷺ ان ھذہ الصدقات انماھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لاٰل محمد رواہ مسلم و فی حاشیۃ المشکوٰۃ اِنَّمَا سماھا اوساخاً لانھا تطھر اموالھم و نفوسھم قال تعالیٰ خذمن اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا فھی کغسالۃ الاوساخ ففی الکلام تشبیۃ بلیغ 12 من المرقاۃ (اور زکوٰۃ بنی ہاشم کو نہ دی جائے اور بنی ہاشم حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہے۔ عبدالمطلب بن ربیعہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ صدقات تو لوگوں کی میل ہے اور یہ (حضرت) محمد ﷺ اور آل محمد کے لیے حلال نہیں ہیں۔ اور مشکوٰۃ کے حاشیہ میں مرقاۃ سے نقل کیا ہے کہ زکوٰۃ کو میل اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ لوگوں کے مالوں اور ان کے دلوں کو پاک کرتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لو جس سے تو انہیں پاک کر دے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ تو زکوٰۃ میل کے دھو ون کی طرح ہوگئی پس اس کلام میں بڑی بلیغ تشبیہ ہے) ۔ اگر کسی کے پاس چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر ضروری حاجات سے فاضل سامان پڑا ہوا ہے۔ اس شخص کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور ایسے شخص پر اگرچہ زکوٰۃ فرض نہیں لیکن صدقہ فطر اور قربانی لازم ہے۔ بعض لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بعض مرتبہ زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی لیکن زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہوتا جس کی مثال اوپر گزری۔ نصاب زکوٰۃ : سونے چاندی پر اور ان کی قیمت پر اور مال تجارت پر اور مویشیوں پر زکوٰۃ فرض ہے۔ جب کسی شخص کی ملکیت میں 595 گرام چاندی ہو یا 85 گرام سونا ہو یا ان دونوں سے کسی ایک کی قیمت ہو تو جب سے مالک ہوا ہے اس وقت سے لے کر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے تو اس میں سے 40؍1 مستحقین کو دے دینا فرض ہے۔ پھر اگر کچھ مال تجارت ہو اور کچھ سونا چاندی ہو یا کچھ سونا اور ساتھ ہی کچھ چاندی ہو تو ان سب صورتوں میں زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ مجموعے کی قیمت 595 گرام چاندی کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں بھی چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگا واضح رہے کہ نوٹ بھی چاندی کے حکم میں ہے کسی بھی ملک کے نوٹ اگر کسی کی ملکیت میں ہوں جن کے عوض 595 گرام چاندی خریدی جاسکتی ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے اگر کسی کی ملکیت میں نہ چاندی ہو اور نہ نقد رقم (ایک دو روپیہ بھی ملکیت میں نہ ہو) تو 85 گرام سونا ملکیت میں ہونے سے زکوٰۃ فرض ہوگی۔ احادیث شریفہ میں دو سو درہم چاندی اور بیس مثقال سونے کا نصاب بتایا ہے، علمائے ہند نے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے ملک کے سکہ کے اعتبار سے حساب کیا تھا تو دو سو درہم چاندی کے ساڑھے باون تولہ اور بیس مثقال سونے کے ساڑھے سات تو لے بنتے تھے۔ اب نئے اوزان سے حساب کیا تو چاندی کا نصاب 595 گرام اور سونے کا نصاب 85 گرام ہوا۔ تنبیہ : یہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سونے سے زیادہ سونا ہو تو اس زائد پر زکوٰۃ فرض ہوگی یہ غلط ہے، جب نصاب پورا ہوجائے یا اس سے زیادہ ہوجائے تو پورے مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے (چاندی ہو یا سونا ہو یا مال تجارت ہو یا ان کا مجموعہ ہو) زکوٰۃ کے ضروری مسائل مسئلہ : سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰۃ ہے خواہ سکہ کی صورت میں ہو، خواہ ان کی اینٹیں رکھی ہوں۔ خواہ زیور ہو، استعمال میں ہو یا غیر استعمالی ہو، خواہ برتن ہوں۔ بہر صورت ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ مسئلہ : زمین کی پیداوار، باغ کی پیداوار اور مویشیوں میں بھی زکوٰۃ ہے جس کی تفصیلات کتب فقہ میں لکھی ہیں۔ اور پیداوار کی زکوٰۃ کے بارے میں ضروری مسائل سورة بقرہ کی آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) کی تفسیر میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ (انوار البیان ج 1) مسئلہ : زکوٰۃ کی رقم کسی کافر کو نہیں دی جاسکتی۔ مسئلہ : مدرسوں میں اگر زکوٰۃ دی جائے اور اس میں سے مستحقین طلباء کو وظیفہ دے دیا جائے یا ان کو کھانا دے کر مالک بنا دیا جائے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اباحت کے طور پر کھانا کھلا دیا جائے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ اسی طرح مال زکوٰۃ سے مدارس کے کتب خانوں میں مال زکوٰۃ سے کتابیں جمع کردینا طلباء کے لیے لحاف، بسترے اور چار پائیاں جمع کردینا اور ان کو عاریتاً دے دینا اور جاتے وقت واپس لے لینا اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ تملیک نہیں ہوئی۔ ان چیزوں کے لیے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ اصحاب اموال سے مستقل چندہ کرلیا جائے۔ مسئلہ : کسی مریض کے علاج کی فیس یا ایکسرے وغیرہ کی اجرت بالا مال زکوٰۃ سے ادائیگی کردی جائے اور مریض کو قبضہ نہ کرایا جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ کیونکہ تملیک نہیں ہوتی۔ مسئلہ : اگر مال زکوٰۃ سے دوائیں خرید کر ہسپتال میں رکھ دی جائیں اور مستحقین زکوٰۃ کو دے دی جائیں تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ یہ خیال رکھا جائے کہ یہ دوائیں صاحب نصاب کو اور بنی ہاشم کو اور کافر کو نہ دی جائیں۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص مقروض ہے اور صاحب نصاب نہیں ہے اور اس کے کہنے سے (کہ مجھ پر جو قرض ہے وہ ادا کر دو ) کوئی شخص اس کی طرف سے قرض خواہ کو مال زکوٰۃ دے دے۔ تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اور اگر قرضدار کے کہے بغیر اس کی طرف سے مال زکوٰۃ سے قرضے کی ادائیگی کے طور پردے دیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں صاحب مال متبرع ہوگیا۔ مسئلہ : اگر دکاندار یا کسی بھی شخص کا کوئی شخص مقروض ہو اور اس کے پاس ادائیگی کے لیے مال نہ ہو تو جس کا قرضہ ہے وہ اپنے قرضہ کو زکوٰۃ میں منہا نہیں کرسکتا۔ ہاں یہ کرسکتا ہے کہ قرضدار کو بلا کر زکوٰۃ کی رقم اس کے ہاتھ میں دیدے۔ پھر اس سے اسی وقت اپنے قرضہ میں وصول کرلے جب اس کی ملکیت میں مال پہنچ گیا تو اب زبردستی بھی وصول کرسکتے ہیں کیونکہ قرض خواہ کو اپنا قرضہ وصول کرنے کا حق ہے۔ مسئلہ : اگر کسی کو ثواب کے طور پر مال دے دیا اور ادائیگی زکوٰۃ کی نیت نہ کی تو اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے شرط ہے کہ مستحق کو دیتے وقت زکوٰۃ کی ادائیگی کی نیت کرے اور ایک طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال ادائیگی زکوٰۃ کی نیت سے دوسرے مال سے الگ کر کے کسی بکس وغیرہ میں رکھ لے اور یہ نیت کرے کہ فقراء آتے رہیں گے تو اس میں سے دیتا رہوں گا اس صورت میں فقراء کو دیتے وقت نیت کا استحضار نہ ہوا تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ مال علیحدہ کرتے وقت جو نیت کی تھی وہی کافی ہوگئی۔ مسئلہ : جس شخص کو زکوٰۃ دی جائے کسی عمل کے عوض میں نہ ہو لہٰذا امام مؤذن اور مدرس اور کسی بھی ملازم کی تنخواہ میں زکوٰۃ میں زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ البتہ (الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا) اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ قرآن مجید میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مسئلہ : جنہیں امیر المؤمنین نے زکوٰۃ کے اموال وصول کرنے پر مامور کردیا ان کے علاوہ جتنے بھی مصارف ہیں ان سب میں اس شخص کا غیر صاحب نصاب ہونا ضروری ہے جس کو زکوٰۃ دی جائے۔ فی البحر الرائق (ص 259 ج 2) وانما حلت للغنی (العامل) مع حرمۃ الصدقۃ علیہ لأنہ فرّغ نفسہ لھذا العمل فیحتاج الی الکفایۃ و فیہ ایضاً بعد صفحۃ و لا یخفی أن قید الفقیر لا بدمنہ علی الوجوہ کلھا۔ (بحر الرائق میں ہے مالدار پر زکوٰۃ کے حرام ہونے کے باو جود، مالدار عامل کے لیے زکوٰۃ میں سے لینا جائز ہے اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے فارغ کیا ہے لہٰذا وہ ضرورت کی کفالت کا محتاج ہے اور ایک صفحہ کے بعد لکھا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مصارف میں فقیر والی قید کا ہونا ضروری ہے) تنبیہ : لفظ ” وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ “ لغوی ترجمہ کے اعتبار سے تو بہت عام ہے لیکن حضرات ائمہ تفسیر اور فقہاء کرام نے اس کو عام نہیں لیا اسی لیے بعض حضرات نے اس سے وہ مجاہدین مراد لیے ہیں جو اپنے ساتھیوں سے رہ جائیں اور پیسہ پاس نہ ہو اور بعض حضرات نے وہ لوگ مراد لیے ہیں جو سفر حج میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں بعض اہل علم نے یہ اشکال کیا ہے کہ اگر ان کی ملکیت میں مال نہ ہو تو فقراء میں شمار ہونگے اور اگر وطن میں مال ہو اور یہاں موجود نہ ہو تو ابن السبیل میں داخل ہوگئے لہٰذا کل اقسام سات بنتے ہیں (اور ان کو یعنی منقطع الغزاۃ منقطع الحاج کو مختلف قسم بنا کر بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی) پھر اس کا جواب یوں دیا کہ کہ واقعی یہ لوگ فقیر کی تعریف میں داخل ہیں لیکن علیحدہ ان کو اس لیے بیان فرمایا کہ مطلق فقیر کی بہ نسبت ان کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ مجاہد اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کے لیے نکلا ہوا ہے اور حاجی بیت اللہ کے زائرین میں سے ہے۔ ان کی طرف زیادہ دھیان دینا چاہئے۔ آج کل ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو تفسیر قرآن اور احکام و مسائل کے بارے میں سلف کا دامن چھوڑ کر جو چاہتے ہیں اپنے پاس سے کہہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ کے عموم میں مسجدیں، مدرسے شفا خانے مسافر خانے کنوئیں سڑکیں اور پل بنانا اور رفاہی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں دینا۔ دفتروں کے مصارف میں خرچ کرنا میت کو قبرستان پہنچانے کے لیے ایمبولینس کا انتظام کرنا اور غریب میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یہ سب جائز ہے۔ یہ ان لوگوں کی جہالت کی باتیں ہیں۔ مفسرین اور محدثین اور فقہاء نے جو کچھ قرآن مجید کو سامنے رکھ کر اخذ کیے ہیں ان کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے قول کی کوئی حیثیت نہیں جو عربی زبان کا ایک صیغہ بھی نہیں بتاسکتے اور جو قرآن مجید کی ایک سورت بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے۔ یہ لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں، زکوٰۃ کا مال جہاں چاہو خرچ کرو۔ تملیک فقیر کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بات چاروں مذہبوں کے خلاف ہے۔ اگر ہر کام میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنے کی اجازت ہوتی تو قرآن مجید میں آٹھ قسمیں بتانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جب یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ان سے فرمایا تھا۔ ان اللہ قد فرض علیھم صدقۃ تؤخذ من اغنیا ءھم فترد علی فقراء ھم۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے فقیروں کو دے دی جائے۔ (رواہ البخاری کمافی المشکوٰۃ ص 155) اس سے صاف ظاہر ہوا کہ زکوٰۃ اس صورت میں ادا ہوگی جب فقراء کو دے دی جائے۔ جو لوگ تملیک کی شرط کو مولویا نہ اپچ قرار دیتے ہیں ان کے سامنے احادیث نہیں ہیں۔ آراء اور اھواء کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ مسئلہ : چاندی۔ سونا۔ نقدی اور مال تجارت میں جو زکوٰۃ فرض ہے اس کی ادائیگی کا یہ طریقہ ہے کہ ہر سال چاند کے حساب سے جب سال گزر جائے پورے مال سے چالیسواں حصہ دے دے اگر اصل مال نہ دے اور اس کی قیمت دیدے تو اس سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی 40؍1 سے کم نہ ہو۔ سو روپے میں ڈھائی روپے اور ایک ہزار میں 25 روپے اور ایک لاکھ میں ڈھائی ہزار روپے کے موافق حساب لگا لیا جائے۔ مسئلہ : جس شہر میں رہتے ہوئے زکوٰۃ فرض ہوئی ہے وہاں کی زکوٰۃ وہیں کے فقراء پر خرچ کی جائے۔ ہاں اگر دوسری جگہ کے لوگ زیادہ محتاج ہوں یا اعزہ و اقربا ہوں تو ان کے لیے بھیج دینا مناسب ہے ! مسئلہ : بعض لوگ حج کرنے کے لیے چندہ مانگتے پھرتے ہیں اور بعض صاحب حیثیت انہیں زکوٰۃ کی رقم سے دے دیتے ہیں جب ایک دو آدمی کے دے دینے سے سوال کرنے والا صاحب نصاب ہوگیا تو اب اسے زکوٰۃ لینا دینا جائز نہیں۔ لوگ اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ جس کسی پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض نہیں کیا وہ حج کے نام پر سوال کرتا پھرے اولاً تو یہ طریقہ ہی غلط ہے دوسرے جب مانگنے والا صاحب نصاب ہوگیا تو اب اس کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں رہا۔ مسئلہ : بہت سے لوگ لڑکیوں کی شادیوں کے لیے زکوٰۃ کی رقم دے دیتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی سادی کیوں نہیں کی جاتی ؟ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اختیار کریں اور اسی پر دونوں فریق راضی رہیں۔ اصل نکاح تو ایجاب و قبول کا نام ہے جو دو گواہوں کے سامنے ہو اس میں ذرا سا خرچہ بھی نہیں ہوتا پھر ایجاب و قبول کے بعد جو بیٹی والے کو میسر ہو وہ بطور جہیز لڑکی کے سسرال میں روانہ کر دے اس میں خیر ہی خیر ہے۔ ریا کاری کی گنا ہگاری میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر لڑکی کا باپ صاحب نصاب ہو تو اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور اگر لڑکی صاحب نصاب ہو تو اسے بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں پھر اگر صاحب نصاب نہ ہونے اور غیر بنی ہاشم ہونے کی بنیاد پر زکوٰۃ دی جائے تو ایک دو آدمی کے دینے سے بقدر نصاب ملکیت میں مال آجاتا ہے۔ جب تک وہ مال ملکیت میں رہے گا اس وقت تک زکوٰۃ لینا دینا جائز نہیں ہوگا۔ مسئلہ : بعضی قوموں میں رواج ہے کہ اپنی قوم کی زکوتیں وصول کر کے بینک میں جمع کرتے رہتے ہیں اور اس مسئلہ کا بالکل دھیان نہیں رکھتے کہ جب تک یہ مال فقراء اور مساکین کی ملکیت میں نہیں جائے گا اس وقت تک ان سب لوگوں کی زکوٰتیں ادا نہ ہوں گی جنہوں نے یہ رقمیں دی ہیں لہٰذا جلد سے جلد مصارف زکوٰۃ میں ان کو خرچ کردینا لازم ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بینک دیوالیہ ہوگیا یا بنک پر کسی حکومت نے قبضہ کرلیا۔ یا ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تو ان سب صورتوں میں ان سب لوگوں کی زکوتوں کی ادائیگی رہ جاتی ہے۔ جن کے اموال لے کر بینک میں جمع کردیئے گئے تھے۔ مسئلہ : جو لوگ سوال کرنے کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں عموماً صاحب نصاب ہوتے ہیں۔ چھوٹے موٹے دکانداروں سے ان کی ملکیت میں زیادہ پیسہ ہوتا ہے۔ لہٰذا سوال کرنے والوں کو زکوٰۃ دینے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر کسی سائل کو زکوٰۃ دیں تو پہلے یقین کرلیں کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے۔ صحیح بخاری (ص 200 ج 1) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس گھومتا پھرتا ہے۔ اسے ایک لقمہ یا دو لقمے یا ایک کھجور یا دو کھجوریں واپس کرتی ہیں لیکن مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں پاتا جس سے اس کی ضرورت پوری ہو اور اس کے حاجت مند ہونے کا پتہ نہیں چلتا تاکہ اس کو صدقہ دے دیا جائے۔ وہ کھڑے ہو کر لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ واقعی حاجتمند کو تلاش کر کے زکوٰۃ کا مال دیا جائے۔ بہت سے لوگ بہت زیادہ حاجت مند ہوتے ہیں آبرو کی وجہ سے سوال نہیں کرتے اور ننگے بھوکے گھروں میں اپنی زندگیاں گزارتے ہیں ایسے لوگوں کا خاص خیال کیا جائے یہ واضح رہے کہ زکوٰۃ بھی نماز کی طرح سے فرض ہے۔ جس طرح نماز کے احکام و مسائل کا جاننا اور نماز کو شرعی قواعد کے مطابق پڑھنا طہارت کے لیے پاک پانی کا دیکھنا استنجا ٹھیک کرنا، کپڑوں کا پاک رکھنا، قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔ اور جو چیزیں نماز میں پڑھی جاتی ہیں صحیح طریقے پر ان کو یاد کرنا لازم ہے اسی طرح سے زکوٰۃ کے مسائل اور احکام کا جاننا بھی ضروری ہے، زکوٰۃ کا مال جس کو چاہا دے دیا جس مصرف میں چاہا خرچ کردیا جس انجمن میں چاہا جمع کردیا۔ زکوٰۃ ادا ہو یا نہ ہو۔ یہ فرض کی ادائیگی کا طریقہ نہیں۔ مال حلال کماؤ حلال مواقع میں خرچ کرو۔ زکوٰۃ فرض ہوجائے تو ٹھیک حساب سے ادا کرو اور جس کو دو اس کے بارے میں پہلے یقین کرلو کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے۔
Top