Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمایا تو ہم ضرور ضرور خیرات کریں گے اور ضرور ضرور ہم نیک آدمیوں میں شمار ہوجائیں گ
آیت بالا کے سبب نزول سے متعلق صاحب معالم التنزیل (ص 312 ج 2) نے اور حافظ ابن کثیر (ص 374 ج 2) نے ایک واقعہ لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ثعلبہ بن حاطب ایک شخص تھا اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ سے دعا فرمائیے مجھے مال عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے زیادہ مال سے بہتر ہے جس کی تجھے برداشت نہ ہو۔ اس نے پھر اسی دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے۔ آپ نے اس کے لیے دعا فرما دی اس نے بکریاں پالنا شروع کردیا ان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی تو وہ مدینہ منورہ سے باہر کسی وادی میں چلا گیا۔ صرف ظہر اور عصر کی نماز میں حاضر ہوتا تھا پھر وہ وقت آیا کہ اسے مدینہ منورہ شہر میں حاضر ہونے کی فرصت ہی نہیں رہی۔ جمعہ کی حاضری بھی ختم ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمی مویشیوں کے صدقات وصول فرمانے کے لیے بھیجے۔ جب یہ دونوں ثعلبہ بن حاطب کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ تو جزیہ ہے یا جزیہ کی بہن ہے۔ اور یوں بھی کہا کہ ذرا غور کرلوں کہ مجھے کیا دینا ہے۔ اور کتنا دینا ہے۔ جب یہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر صورت حال بیان کرنے سے پہلے فرما دیا کہ ثعلبہ پر افسوس ہے۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَءِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اپنے فضل سے ہمیں مال دیدے تو ہم ضرور ضرور صدقہ کریں گے اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے) اس موقعہ پر ثعلبہ کے رشتہ دار بھی خدمت میں عالی میں موجود تھے انہوں نے جا کر خبر دی کہ تیرے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے۔ اس پر وہ صدقہ لے کر آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے منع فرما دیا ہے کہ تیرا صدقہ قبول کروں۔ اس پر وہ سر پر مٹی ڈالنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے کہا تھا (کہ تھوڑا مال شکر کے ساتھ زیادہ مال سے بہتر ہے جس کی برداشت نہ ہو) تو نے میری بات پر عمل نہ کیا۔ جب آپ نے اس کا صدقہ قبول فرمانے سے انکار کردیا تو وہ اپنا مال لے کر چلا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی پھر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس اور ان کے بعد حضرت عمر ؓ کے پاس اور ان کے بعد حضرت عثمان ؓ کے پاس صدقہ لے کر آیا تو ان حضرات میں سے کسی نے قبول نہ کیا۔ اور خلافت عثمانی میں ثعلبہ کی موت ہوگئی۔ مال میں مشغول ہو کر اس نے جماعتوں اور جمعہ کی حاضری چھوڑ دی اور آنحضرت ﷺ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کو صدقہ نہیں دیا اور اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا تھا کہ مال ملے گا تو صدقہ دوں گا اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں گا اس کی خلاف ورزی کی۔
Top