Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 82
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
فَلْيَضْحَكُوْا : چاہیے وہ ہنسیں قَلِيْلًا : تھوڑا وَّلْيَبْكُوْا : اور روئیں كَثِيْرًا : زیادہ جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
سو یہ لوگ تھوڑا سا ہنس لیں اور زیادہ روئیں ان اعمال کے بدلہ جو وہ کیا کرتے تھے
پھر فرمایا (فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا) کہ یہ دنیا میں تھوڑا سا ہنس لیں اور آخرت میں زیادہ روئیں گے۔ یہاں تھوڑی سی خوشی ہے جس میں ہنسی بھی ہے اور دوسروں کا مذاق بنانا بھی ہے جس کو خوشی طبعی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آخرت میں کافروں کی جو بد حالی ہوگی اس پر جو روئیں گے اس رونے کا تصور کریں تو یہاں کی ذرا سی خوشی کو بھول جائیں۔ وہاں تو ان کا رونا ہی رونا ہے۔ حضرت عبداللہ بن قیس (یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا نام ہے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ دوزخی اتنا روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں میں اگر کشتیاں چلائی جائیں تو جاری ہوجائیں (اور ان کے آنسو عام آنسو نہ ہوں گے بلکہ) وہ آنسوؤں کی جگہ خون سے روئیں گے۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک (ص 605 ج 4) و قال ھذا حدیث صحیح الاسناد و أقرۃ الذھبی) (حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے اس حدیث کی سند صحیح ہے اور علامہ ذہبی نے بھی اسے یہی مقام دیا ہے) جو لوگ دنیا میں اللہ کے خوف سے روتے ہیں ان کا یہ رونا رحمت اور نعمت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں (دوزخ کی) آگ نہ چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئی اور ایک وہ آنکھ جس نے فی سبیل اللہ (جہاد میں) چوکیداری کرتے ہوئے رات گزاری۔ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب) حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کس چیز میں نجات ہے آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھ تاکہ تجھے نقصان نہ پہنچا دے اور تیرے گھر میں تیری گنجائش رہے۔ (یعنی بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکل کیونکہ باہر فتنے ہیں اور گناہوں کے کام ہیں اور اپنے گناہوں پر روتا رہ) (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب) جو لوگ آخرت کے فکر مند نہیں ہیں وہ یہاں نہیں روتے انہیں وہاں رونا ہوگا۔ (جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (ان کاموں کے بدلے جو یہ کیا کرتے تھے) یعنی ان کا یہ بہت زیادہ رونا کفر و نفاق اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوگا۔
Top