Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 84
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَا تُصَلِّ : اور نہ پڑھنا نماز عَلٰٓي : پر اَحَدٍ : کوئی مِّنْهُمْ : ان سے مَّاتَ : مرگیا اَبَدًا : کبھی وَّلَا تَقُمْ : اور نہ کھڑے ہونا عَلٰي : پر قَبْرِهٖ : اس کی قبر اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَهُمْ : جبکہ وہ فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور ان میں سے جو کوئی شخص مرجائے تو آپ اس پر کبھی نماز نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں، بیشک ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ نافرمان تھے۔
منافقوں کی نماز جنازہ نہ پڑھئے اور ان میں سے کسی کی قبر پر کھڑے نہ ہوجائیے صحیح بخاری (ص 673، ص 674 ج 2) میں ہے کہ جب عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) مرگیا تو اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ خدمت عالی میں حاضر ہوا (جو خالص مسلمان تھا) اور اس نے کہا کہ میرے باپ کی موت ہوگئی ہے آپ اپنا کرتہ عنایت فرما دیں جو اسے بطور کفن پہنا دیا جائے آپ نے اپنا کرتہ عنایت فرما دیا پھر عرض کیا کہ آپ نماز بھی پڑھائیں آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے آپ کا کپڑا پکڑ لیا اور عرض کیا کہ آپ اس کی نماز پڑھاتے ہیں حالانکہ وہ منافق ہے۔ آپ نے پھر بھی اس کی نماز پڑھا دی اس پر آیت بالا (وَ لَا تُصَلِّ عَلآی اَحَدٍمِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا) (آخر تک) نازل ہوئی۔ فتح الباری (ص 336 ج 8) میں ہے کہ آپ نے اس کے بعد کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی، باقی رہی یہ بات کہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے میں کیا مصلحت تھی ؟ اس کے بارے میں فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس کے بیٹے عبداللہ کی خوشی کے لیے اور قبیلہ خزرج کی تالیف قلب کے لیے ایسا فرمایا۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرا کرتہ اسے کیا فائدہ دے گا۔ میں نے تو یہ عمل اس لیے کیا ہے کہ اس کی قوم کے ہزار آدمی مسلمان ہوجائیں 1 ھ روح المعانی (ص 154 ج 10) میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس عمل سے قبیلہ خزرج کے ایک ہزار سے زیادہ افراد مسلمان ہوجائیں گے، پھر لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امید پوری کی اور ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ عبداللہ بن ابی کو جو آپ نے اپنا کرتہ عطا فرمایا تھا اس کی وجہ تفسیر و حدیث کی کتابوں میں یہ لکھی ہے کہ آپ کے چچا عباس کو جب بدر کے قیدیوں میں لایا گیا تھا تو اس وقت ان کے بدن پر کپڑا نہ تھا۔ قد آور بھاری ہونے کی وجہ سے کسی کا کپڑا ان کے جسم پر نہیں آتا تھا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتہ پہنا دیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اس کی مکافات کے لیے اپنا کرتہ کفن میں شامل کرنے کے لیے عنایت فرما دیا۔ (روح المعانی ص 154 ج 10)
Top