Anwar-ul-Bayan - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں۔
(10:21) اذقنا۔ ماضی جمع متکلم۔ اذاقۃ۔ مصدر۔ (افعال) ذوق (اجوف وادی) اذاق یذیق اذاقۃ چکھانا۔ ماضٰ بمعنی مجارع۔ ہم چکھاتے ہیں۔ اذقنا الناس رحمۃ۔ لوگوں کو رحمت سے نوازتے ہیں۔ مستھم۔ ماضی واحد مؤنث غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ان کو پہنچی۔ ان کو لاحق ہوئی۔ مس یمس (نصر) چھونا۔ پہنچنا۔ مس المرض او الکبر فلانا۔ فلاں کو بیماری یا پڑھاپا لاحق ہوا۔ مکر۔ المکر کے معنی حیلہ سے کسی شخص کو اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں۔ اگر اس چال سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو یہ محمود ہے ورنہ مذموم۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو ہمیشہ اول الذکر معنی میں آتا ہے جیسے قرآن میں آیا ہے واللہ خیر الماکرین (3:54) اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ اذا لہم مکر فی ایتنا۔ تو فوراً ہماری آیات میں مکرو فریب کرنے لگ پڑتے ہیں یعنی ان کی الٹ تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں۔ (یعنی بجائے اس کے کہ تکلیف سے خلاصی اور نعمت و رحمت کی نوازش کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کریں وہ حیلہ بہانہ سے اسے یا تو اپنے بتوں کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں یا ستاروں کی گردش پر اسے محمول گردانتے ہیں) اسرع مکرا۔ ای اسرع مکرا منکم۔ وہ اپنی چال چلنے میں تم سے بہت تیز ہے۔ یعنی جب وہ تمہاری چالوں پر سزا دینے کو آجائے تو وہ تم سے بہت تیز تر ہے۔ رسلنا۔ ہمارے رسول۔ ہمارے فرستادہ۔ یعنی فرشتے۔ کراماً کاتبین۔ ماتمکرون۔ جو فریب تم کر رہے ہو۔ جو چالین تم چل رہے ہو۔
Top