Anwar-ul-Bayan - Yunus : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا جب وہ آ واقع ہوگا (تب اس پر ایمان لاؤ گے ؟ ) (اس وقت کہا جائیگا کہ) اور اب (ایمان لائے) اسی کے لئے تو تم جلدی مچایا کرتے تھے۔
(10:51) اثم اذا ما۔ الف استفہام کے لئے۔ ثم پھر اذا ما۔ یعنی کب۔ تب۔ بہ۔ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ بھی ہوسکتا ہے اور عذاب بھی۔ پھر کیا تم اس (عذاب) کے واقع ہونے پر ہی ایمان لاؤ گے۔ پھر کیا جب آہی جائے گا تو تم ایمان لاؤ گے۔ (اصل میں منکرین اسلام کا عذاب پر ایمان ہی نہ تھا تب ہی تو وہ کہتے تھے : ویقولون متیٰ ھذا الوعد ان کنتم صدقین (آیۃ 48) اور اسی لئے وہ اس کی جلدی مچا رہے ہیں) الئن۔ ہر وہ لمحہ جو ماضی اور مستقبل کے مابین فرض کیا جاوے اسے الئن کہتے ہیں جیسے الئن افعل کذا میں اب کرتا ہوں الئن کا لفظ ہمیشہ الف لام تعریف کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ان اصل میں ادان تھا۔ ہمزہ کو حذف کرکے واؤ کو لاف سے بدلا اس کے ساتھ الف لام تعریف کا شامل کرلیا تو الئن ہوگیا۔ ظرف زمان ہے مبنی برفتح۔ بمعنی اب۔ الئن۔ ا الان ہے۔ پہلا الف استفہام کے لئے ہے تقدیر کلام یوں ہے ویقال لہم الئن تؤمنون ای حین وقع العذاب۔ اور ان سے کہا جائے گا کیا تم اب ایمان لاتے ہو۔ جب عذاب وقوع پذیر ہوچکا۔ وقد کنتم بہ تستعجلون ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب عذاب کے لئے ہے واو حالیہ ہے حالانکہ تم اس کی جلدی مچا رہے تھے (اس کے جلدی نازل ہونے کے لئے بیتاب تھے) ۔
Top