Anwar-ul-Bayan - Yunus : 67
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ
ھُوَ : وہی الَّذِيْ : جو۔ جس جَعَلَ : بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم سکون حاصل کرو فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا : دکھانے والا (روشن) اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : سننے والے لوگوں کے لیے
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور روز روشن بنایا (تاکہ اس میں کام کرو) جو لوگ (مادہ) سماعت رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔
(10:67) ھو الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ والنھار مبصرا۔ تسکنوا۔ سکن یسکن (نصر) سکون سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم سکون پذیر ہو۔ تم چین حاصل کرو۔ اصل میں تسکنون تھا۔ لام کے آنے سے نون اعرابی گرگیا۔ مبصرا۔ اسم فاعل واحد مذکر حالت نصب۔ ابصار مصدر (باب افعال) ابصار کے معنی دیکھنا۔ جاننا۔ سمجھنا کے بھی آتے ہیں اور دکھانے اور سمجھانے کے بھی۔ اسی بناء پر مبصر کے معنی دیکھنے والا اور دکھانے والا دونوں ہوسکتے ہیں۔ جو خود روشن ہو وہ بھی مبصر ہے اور جو دوسروں کو واضح اور روشن کر دے وہ بھی مبصر ہے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو۔ اور (جس نے تمہارے لئے) روشن دن بنادیا ۔ لیکن جب رات کو دن کے مقابلہ میں لایا گیا ہے تو تسکنوا کے مقابلہ میں دن کے وقت کے لئے تتحرکوا متوقع تھا لیکن اس کو وہاں حذف کیا گیا ۔ اسی طرح جب دن کے لئے مبصرا لایا گیا ہے تو اس کے مقابلہ میں رات کے وقت کے لئے مظلما کا استعمال چاہیے تھا جو یہاں محذوف ہے۔ یعنی عبارت یوں ہوتی۔ ھو الذی جعل لکم الیل مظلما لتسکنوا فیہ والنھار مبصرا لتتحرکوا۔ یعنی وہی ہے جس نے رات کو اندھیروالی بنایا کہ تم (چونکہ عدم روشنی کی وجہ سے اور کوئی کام نہیں کرسکتے تو) اس میں تم آرام کرو۔ اور ان کو روشن بنایا (کہ تم اس کی روشنی میں اپنے کاروبار کے لئے چلو پھرو) لیکن متن قرآن کے مطابق تسکنوا کی رعایت سے تتحرکوا اور مبصرا کی رعایت سے مظلما کو ذہن میں لانا مشکل نہیں۔ مبصرا۔ یہاں بمعنی روشن یا دوسروں کو روشن کرنے والا۔ دیکھنے والا۔ یا دکھانے والا دونوں صحیح ہیں۔ دیکھنے والا کے معنی میں یہ ترکیب ایسی ہے جیسے کہتے ہیں نھارہ صائم اس کا دن روزہ رکھتا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن کا روزہ رکھتا ہے۔ فعل کی نسبت فاعل کی طرف کرنے کے ظرف کی طرف کردی۔ جیسا ہم اردو میں بولتے ہیں ندی بہہ رہی ہے۔ حالانکہ ندی ظرف مکان ہے۔ اور اپنی جگہ قائم ہے اس میں جو پانی ہے وہ بہہ رہا ہے اسی طرح مبصرا سے مراد یہ نہیں کہ دن دیکھ رہا ہے بلکہ لوگ دن کے وقت دیکھد ہے ہوتے ہیں ۔
Top