Anwar-ul-Bayan - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ : سو نہ اٰمَنَ : ایمان لایا لِمُوْسٰٓى : موسیٰ پر اِلَّا : مگر ذُرِّيَّةٌ : چند لڑکے مِّنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم عَلٰي خَوْفٍ : خوف کی وجہ سے مِّنْ : سے (کے) فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهِمْ : اور ان کے سردار اَنْ : کہ يَّفْتِنَھُمْ : وہ آفت میں ڈالے انہیں وَاِنَّ : اور بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون لَعَالٍ : سرکش فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
فما امن۔ ما نافیہ ہے اور امن۔ ایمان سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ ذریۃ۔ الذریۃ کے اصل معنی چھوٹی اولاد کے ہیں۔ مگر عرف عام میں مطلق اولاد پر یہ لفاظ بولا جاتا ہے اصل میں یہ لفظ جمع ہے لیکن واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کس مادہ سے مشتق ہے اس میں علمائے لغت کا اختلاف ہے۔ ذرر۔ ذرء ۔ ذرو اس کے مصادر بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں ذریۃ سے مراد چھوٹی اولاد (نوجوان) لیا گیا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ بالکل چھوٹے بچوں کا ایمان لانا نہ لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ اتنا شعور ہی نہیں رکھتے ۔ نوجوان اس لئے یہاں مراد لیا گیا ہے کہ ان کے اس فعل سے جو دوسری جانب سے ظلم و ستم و عذاب و عتاب کا طوفان اٹھ کھڑا ہونے کا ڈر تھا اس کا مقابلہ جو ان خون ہی کرسکتا ہے بوڑھے اس کی تاب نہیں لاسکتے۔ اور اس کی مثال رسول مقبول ﷺ کی زندگی سے بھی ملتی ہے کہ آپ کی دعوت حق پر پہلے پہل جو اصحاب ایمان لائے تھے وہ سب نوجوان ہی تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت جعفر طیار، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ یہ تمام حضرات قبول اسلام کے وقت 20 سال سے کم عمر کے تھے۔ ابتدائی مسلمانون میں صرف حضرت عبیدہ بن حارث ہی ایسے تھے جو کہ رسول کریم ﷺ سے زیادہ عمر کے تھے۔ اس لئے یہاں ذریۃ سے مراد نوجوان لینا ہی صحیح ہے۔ قومہ۔ میں ہ ضمیر کا مرجع کون ہے اس کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ (1) بعض کہتے ہیں کہ اس کا مرجع فرعون ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل تو ساری کی ساری ان پر ایمان لاچکی تھی اور ان کی نبوت و رسالت کو مانتی تھی اس لئے چند نوجوانوں کا ایمان لانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ فرمعون کی قوم سے چند اشخاص نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا تھا ۔ مثلاً حضرت بی بی آسیہ (فرعون کی بیوی) فرعون کا خزانچی۔ اس کی بیوی اور چند جادوگر جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر ایمان لے آئے تھے۔ لیکن اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان کا یہ استدلال چنداں وزنی نہیں ہے۔ علماء ادب کی تحقیق کے مطابق اگر امن کا صلہ ب ہو تو اس کے معنی کسی پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا ہوتا ہے ۔ اور اگر اس کا صلہ ل ہو تو پھر اس کا معنی اطاعت وانقیاد کے ہوتے ہیں یعنی کسی کی بات ماننا اور اس کے کہے پر چلنا اور عمل کرنا۔ یہاں امن کا صلہ ب نہیں ہے کہ نبی اسرائیل کی اکثریت کا کفر ثابت ہو بلکہ امن ل استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کو مانتے تھے لیکن اس معرکہ حق و باطل میں آپ کا ساتھ دے کر فرعون اور اس کی قوم کے ظلم و ستم کا سامنا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ (2) دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مرجع موسیٰ ہے اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی اور دوسری یہ کہ ضمیر ہمیشہ قریب تر کی طرف راجع ہوتی ہے اور یہاں قریب تر موسیٰ کا لفظ ہے نہ کہ فرعون کا۔ ملائھم۔ ان کے سرداران۔ ان کے سرداروں کی جماعت۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس میں ہم ضمیر کا مرجع کون ہے اس کی تین صورتیں ہیں۔ (1) ہم کا مرجع ذریۃ ہے اور یہاں مراد خود نبی اسرائیل کے وہ نوجوان ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی میں کھلم کھلا آگے آگئے تھے وہ اپنے سرداران یعنی بڑے بوڑھوں سے ڈرتے تھے کیونکہ اگرچہ ان کے بوڑھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے تھے لیکن کھل کر سامنے آنے سے فرعون کے ظلم و عتاب سے بچنے کے لئے گریز کرتے تھے۔ اور انہیں یہ خدشہ تھا کہ ان کے نوجوانوں کی دیدہ دلیری سے کہیں ساری قوم مورد عتاب نہ ہوجائے اس لئے وہ اپنے نوجوانوں کے اس اقدام پر خوش نہ تھے اور ان کو سختی سے روکتے تھے۔ (2) اس کا مرجع فرعون ہے اور فرعون کے لئے ضمیر جمع لانے کی وجوہات ہیں۔ (ا) فرعون کے لئے جمع کی ضمیر اس کی عظمت کے اظہار کے لئے ہے۔ (ب) فرعون سے مراد آل فرعون ہے جیسے ربیعہ اور مضر قبیلے کے افراد اپنے سرداروں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہاں ہم سے مراد آل فرعون ہے۔ یفتنھم۔ مضارع واحد مذکر غائب فتن سے ان کے عمل کی وجہ سے منصوب ہے ہم ضمیر مفعول ۔ الفتن کے اصل معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوسکے۔ اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) اس دن جب ان کو آگ میں الٹا سیدھا کیا جائے گا۔ اس کا اطلاق نفس عذاب پر بھی ہوا ہے۔ جیسے ذوقوا فتنتکم (51:14) اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یعنی عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ لفظ قرآن میں متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ آزمائش، مصیبت، فساد، تختہ مشق، عبرت وغیرہ۔ ان یفتنھم۔ میں یفتن صیغہ واحد مذکر غائب استعمال ہوا ہے۔ اس کا فاعل یا تو (1) فرعون ہے اور صیغہ جمع اس لئے نہیں لایا گیا کہ سرداران فرعون بھی اس کے تابع امر تھے (خازن) یا (2) فرعون وملائہم ہے جیسا کہ عبد اللہ یوسف علی نے اپنے ترجمہ میں استعمال کیا ہے کہ وہ انہیں کسی عذاب میں مبتلا نہ کردیں۔ عال۔ سرکش، متکبر، غالب۔ علو سے صیغہ اسم فاعل واحد مذکر۔ عال اصل میں عالو تھا۔ واؤ پہلے ی ہوا ۔ پھر گرگیا۔ کیونکہ جو واؤ اسم فاعل میں کلمہ کے آخر میں ہو اور اس کا ماقبل مکسور ہو وہ ہی ہوکر گرپڑتا ہے۔ مسرفین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اسراف مصدر۔ حد اعتدال سے یاحدّ مقرر سے بڑھنے والے بیجا صرف کرنے والے۔
Top