Anwar-ul-Bayan - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
جب دیکھا کہ ان کہ ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجئے ہم قوم لوط کی طرف (انکے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں
(11:70) الیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع عجل۔ نکرہم۔ الا نکار۔ عرفان کی ضد ہے اس نے نہ پہچانا۔ اس نے اجنبی خیال کیا۔ وہ ان کی طرف سے شبہ میں پڑگیا۔ انکار عدم معرفت ہے۔ لیکن بعض اوقات انسان جانتے ہوئے بھی انکار کردیتا ہے۔ اسے کذب کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے یعرفون نسمۃ اللہ ثم ینکروھا (16:83) یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر انکار کرتے ہیں۔ المنکر۔ ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جسے عقل سلیم قبیح خیال کرے۔ یا عقل کو اس کے حسن و قبیح میں توقف ہو۔ مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو۔ قرآن مجید میں ہے وتاتون فی نادیکم المنکر (29:29) اور تم اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو۔ اوجس۔ اس نے محسوس کیا۔ ایجاس سے جس کے معنی دل میں محسوس کرنے اور قلب میں پاشیدہ آواز پانے کے ہیں۔ ماضٰ کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ وجس مادہ۔ اوجس منھم خیفۃ۔ ان کی طرف سے دل میں ڈر محسوس کیا۔ ایک اور جگہ آیا ہے فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ (20:60) (اس وقت) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان نوواردوں نے کھانے میں تامل کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی نیت پر شبہ ہونے لگا ۔ کہ کہیں یہ دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے۔ کیونکہ عرب میں جب کوئی کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے۔ لیکن بعد کی تفسیر اس کی تائید نہیں کرتی ۔ بلکہ اندازکلام سے ظاہرہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات میں ہی ہوا کرتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوف جس بات کا ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھروالوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہوگیا جس پر گرفت کے لئے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے گئے ہیں اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ڈرو نہیں ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لئے کہا کہ ” ہم تو قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف بھیجے گئے ہیں “ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے ہی جان گئے تھے (تفہیم القرآن)
Top