Anwar-ul-Bayan - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے
(11:77) سیٔ بھم۔ سوء سے ماضی مجہول، واحد مذکر غائب، وہ دل گیر ہوا، غمگین ہوا۔ ضاق۔ ضیق سے۔ وسعت کی ضد ہے۔ وہ تنگ ہوا۔ ذرعا۔ طاقت ۔ گنجائش۔ ہاتھ کی کشادگی۔ الذراع۔ کہنی سے لے کر درمیانی انگلی کے اخیر تک کا حصہ۔ ہاتھ (لمبائی کی اصلاح میں) ذراع جمع ۔ ذرعان واذرع۔ تفسیر الخازن میں ہے ” ازہری کا بیان ہے کہ : ذرع۔ طاقت کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے : اور اس کی اصل یوں ہے کہ اونٹ اپنی رفتار میں اگلے قدموں کو پچھلے قدموں کی وسعت کے اعتبار سے بڑھاتا ہے اور جب اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے اگلے قدم تنگ ہوجاتے ہیں اور وہ کمزور ہوکر اپنی گردن لمبی کردیتا ہے۔ پس ضیق الذرع عبارت ہے ضیق الوسع والطاقۃ سے پس ضاق بھم ذرعا سے معنی ہوئے کہ معاملہ کی خرابی سے رہائی کی صورت کوئی نہ مل سکی۔ علامہ بیضاوی (رح) لکھتے ہیں کہ : جب انسان کسی مکروہ امر سے مدافعت میں عاجز ہوجائے تو یہ الفاظ دل گرفتگی اور انقباض کے اظہار کے لئے بطور کنایہ بولے جاتے ہیں۔ عربی میں محاورہ ہے ضاق بکذا اذراعی میں اس سے عاجز ہوں۔ پس ضاق بہم ذرعا کے معنی ہوئے اس نے اپنے آپ کو ان کے سامنے بےبس پایا۔ یوم عصیب۔ عصیب۔ سخت ۔ بھاری۔ عصب سے۔ جس کے معنی سخت کس کر باندھنے اور گھیرلینے کے ہیں۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یوم عصیب سخت دن ۔ سخت بھاری دن۔
Top