Anwar-ul-Bayan - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
(13:22) ابتغائ۔ (باب افتعال) بغی سے۔ البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ۔ بغی دوقسم پر ہے۔ (1) محمود یعنی حد اعتدال سے تجاوز کر کے مرتبہ احسان حاصل کرنا۔ اور فرض سے تجاوز کر کے تطوع بجالانا۔ (2) مذموم ۔ حق سے تجاوز کر کے باطل یا شبہات میں واقع ہونا۔ ابتغائ۔ خاص کر کوشش کر کے کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش محمود ہوگی۔ مثلاً آیۃ ہذا۔ ابتغاء وجہ ربہم۔ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور ابتغاء رحمۃ من ربک۔ (17:28) اپنے پروردگار کی رحمت حاصل کرنے کے لئے۔ یدرء ون۔ مضارع جمع مذکر غائب درء مصدر باب فتح ، دور کرتے ہیں دفع کرتے ہیں (نیکی کے ذریعے برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ) الدرء (فتح) کے معنی (نیزہ وغیرہ کے) ایک طرف مائل ہوجانے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے۔ قومت درء ۃ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا۔ اور درءت عنہ میں نے اس سے دفع کیا (دور کیا ہٹایا) عقبی۔ عاقبت، انجام، بدلہ۔ بھلائی۔ جزاء عمل ۔ کیونکہ یہ بھی فعل کی انجام دہی کے بعد ہی ملتی ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں۔ عقبی وعاقبۃ۔ کا استعمال ثواب اور نیکی کی بہتر جزاء کے لئے مخصوص ہے۔ جس طرح کہ عقوبۃ ومعاقبۃ اور عقاب کا استعمال عذاب اور برائی کی سخت سزا کے ساتھ خاص ہے۔ جیسے ھنالک الولایۃ للہ الحق ھو خیر ثوابا وخیر عقبا۔ (18:44) ایسے موقعہ پر کارسازی اللہ برحق ہی کا کام ہے ثواب کے لحاظ سے بھی اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر۔ اور والعاقبۃ للمتقین۔ (28: 83) اور نیک انجام تو متقیوں کے لئے ہے۔ اور عقاب کے بارے میں ارشاد ہے ان کل الا کذب الرسل فحق عقاب۔ (38:14) ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ سو میرا عذاب (ان پر) واقع ہوگیا۔ لیکن اضافت کے ساتھ عاقبت کا استعمال عقوبۃ کے معنی میں ہوتا ہے۔ مثلاً ثم کان عاقبۃ الذین اساء وا السوای (30:10) پھر برا کام کرنے والوں کا انجام برا ہی ہوا۔ علاوہ ازیں ذیل کی آیت میں عقبی کا استعمال ثواب اور عذاب دونوں کے لئے ہوا ہے۔ تلک عقبنی الذین اتقوا وعقبی الکفرین النار۔ (13:35) یہ انجام ہوگا اہل تقویٰ کا اور کافروں کا انجام آتش (دوزخ) ہے۔ عقبی الدار یہاں مضاف مضاف الیہ استعمال ہوا ہے۔ عقبی سے مراد نیک انجام اور الدار سے مراد دنیا ہے۔ لھم عقبی الدار ان کے لئے دنیا (کے نیک کاموں کا) نیک انجام ہوگا۔ صاحب کشاف لکھتے ہیں عقبی الدار ای عاقبۃ الدنیا وھی الجنۃ۔ دنیا میں نیک کام کرنے کا نیک انجام یعنی جنت ۔
Top