Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور پیغمبروں نے (خدا سے اپنی) فتح چاہی تو سرکش ضدی نامراد رہ گیا۔
(14:15) استفتحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے فیصلہ مانگا۔ انہوں نے فتح چاہی ۔ استفتاح (استفعال) سے جس کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں۔ فتح کے معنی غلبہ کی مثال نصر من اللہ وفتح قریب۔ (61:13) (تمہیں) خدا کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب (ہوگی) اور کی مثال قل یوم الفتح لا ینفع الذین کفروا ایمانہم (33:29) کہہ دیجئے (اے محمد ﷺ ) کہ فیصلہ کے روز (یعنی روز قیامت ) کافروں کو ان کا ایمان لانا ذرا بھی نفع نہ دے گا۔ یا۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق (7:89) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے۔ استفتحوا کا فاعل کون ہے۔ ضمیر کا مرجع انبیاء بھی ہوسکتے ہیں اور کفار بھی۔ پہلی صورت میں انبیاء نے کفار سے مایوس ہوکر فتح کی دعا کی۔ اور اللہ نے کفار کو نامراد کردیا۔ دوسری صورت میں کفار نے دعا مانگی کہ اگر یہ انبیاء سچے ہیں تو پر عذاب نازل کر۔ چناچہ عذاب آیا جس نے ہر سرکش کو نامراد کر دیا خاب ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ خیبۃ سے (باب ضرب) وہ نامراد ہوا۔ وہ خراب ہوا۔ اس کا مطلب فوت ہوا۔ الخیبۃ کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وقد خاب من افتری۔ (20:61) اور جس نے افتراء کیا نامراد ہو ہوگیا۔ یا فینقلبوا خائبین۔ (3:127) کہ وہ ناکام ہوکر واپس جائیں۔ جبار۔ زبردست دبائو والا۔ زور کرنے والا۔ سرکش۔ مجبور کرنے والا۔ خود اختیار ۔ جبر۔ سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الجبر۔ کے اصل معنی زبردستی اور دبائو سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ اس صورت میں یہ ذات باری تعالیٰ کے لئے وصف مدح ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان ناجائز تعلق سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرے یا کسی غیر حق بات کو زبردستی منوائے یا کروائے تو ایک مذموم صفت ہے اور اسی معنی میں آیہ ہذا میں اس کا استعمال ہوا ہے۔ یعنی زبردستی کرنے والا سرکش۔ عنید۔ عناد رکھنے والا۔ مخالف۔ ضدّی۔ جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرنے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعلصفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اس کی جمع عند ہے (عند (باب نصر وضرب) وعند (باب سمع) عند (باب کرم) حق کی مخالفت کرنا۔
Top