Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
(14:28) بدلوا نعمت اللہ کفرا۔ ای بدلوا شکر نعمت اللہ کفرا۔ انہوں نے اللہ کی نعمت کا حق ِ شکر کفرانِ نعمت سے بدل ڈالا۔ احلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ احلال سے۔ انہوں نے لا اتارا۔ اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں۔ اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنے کے ہیں۔ اور فروکش ہونا کے بھی آتے ہیں۔ اصل میں یہ ہے۔ حل الاحمال عند النزول سے۔ جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گرہیں کھول دینا کے ہیں۔ پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ لہٰذا حل (باب نصر) حلول کے معنی کسی جگہ اترنا کے ہیں۔ اسی سے ہے محلۃ اترنے کی جگہ۔ حل (باب ضرب) سے کسی چیز کا حلال ہونا (حرام کی ضد) کے ہیں۔ دار البوار۔ تباہی و بربادی کا گھر۔ البوار۔ بار یبور بورا وبوارا۔ (باب نصر) کے معنی کسی چیز کے بہت مندا پڑنے کے ہیں۔ اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کسد حتی فسد اس لئے بوار۔ بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا۔ احلوا قومہم دار البوار۔ انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں (یعنی دوزخ میں اپنی ناشکری کی وجہ سے) لا اتارا۔
Top