Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 2
اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْكٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِۙ
اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو کہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور وَيْلٌ : خرابی لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب شَدِيْدِ : شخت
وہ خدا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور کافروں کے لیے عذاب سخت (کی وجہ) سے خرابی ہے۔
(14:2) اللہ ۔۔ العزیز الحمید۔ کا عطف بیان ہے۔ کیونکہ یہ العزیز الحمید کی وضاحت کرتا ہے یعنی وہ العزیز الحمید۔ یعنی اللہ تعالیٰ اقدس ہے۔ ویل۔ اسم مرفوع۔ ہلاکت۔ عذاب۔ خرابی۔ بربادی۔ دوزخ کی ایک وادی۔ کلمہ ٔ زجرو وعید کلمہ حسرت و ندامت ہے۔ ویل من عذاب شدید۔ عذاب شدید سے خرابی۔ عذاب شدید کے باعث خرابی (یہ عذاب دنیوی بھی ہوسکتا ہے اور عذاب اخروی بھی) ۔ یستحبونمضارع جمع مذکر غائب۔ استحباب (استفعال) مصدر وہ محبوب رکھتے ہیں وہ پسند کرتے ہیں۔ وہ ترجیح دیتے ہیں یصدون۔ صد یصد صدا۔ لازم ومتعدی دونوں میں مستعمل ہے۔ وہ روکتے ہیں وہ باز رہتے ہیں۔ اعراض کرتے ہیں۔ آیۃ ہذا میں دونوں معنی مراد ہیں۔ یبغونھا۔ (وہ اسے چاہتے ہیں) میں ھا ضمیر کا مرجع سبیل اللہ ہے۔ عوجا۔ کج ۔ ٹیڑھا۔ العوج (نصر) کے معنی کسی چیز کا سیدھا کھڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانے کے ہیں۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف موڑ دیا۔ العوج۔ اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جاسکے جیسے لکڑی وغیرہ میں کجی۔ اور العوج (عین کے کسرے کے ساتھ) اس ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل اور بصیرت سے دیکھا جاسکے۔ جیسے کہ معاشرہ میں دینی اور معاشی ناہمواریاں کہ عقل و بصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے۔ یا جیسے قرآن مجید میں ہے قرانا عربیا غیر ذی عوج (39:38) قرآن واضح جس میں کوئی کجی نہیں ہے یا جیسے کہ آیہ ہذا۔ ضلال بعید۔ موصوف وصفت۔ بُعد حقیقۃً ضالّ (گمراہ) کے لئے ہے مبالغہ کے لئے گمراہ کے فعل گمراہی (ضلال) کی صفت میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی وہ گمراہی میں بہت دور جا چکے ہیں۔
Top