Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 46
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
وَ : اور قَدْ مَكَرُوْا : انہوں نے داؤ چلے مَكْرَهُمْ : اپنے داؤ وَ : اور عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ وَ : اور اِنْ : اگرچہ كَانَ : تھا مَكْرُهُمْ : ان کا داؤ لِتَزُوْلَ : کہ ٹل جائے مِنْهُ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ
اور انہوں نے (بڑی بڑی) تدبیریں کیں اور انکی (سب) تدبیریں خدا کے ہاں (لکھی ہوئی) ہیں۔ گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی) تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔
(14:46) مکروا مکرہم۔ انہوں نے اپنی چالیں چلیں۔ اس میں ہم ضمیر فاعل کا مرجع یا تو الذین ظلموا انفسہم ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور جن کے مساکن میں تم آباد رہے۔ یا اس کا مرجع کفار قریش ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف گھنبیر چالیں چلیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او او یقتلوک او یخرجوک۔ (8:30) اور یاد کرو جب خفیہ تدبیریں کر رہے تھے آپ کے بارہ میں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا تاکہ آپ کو قید کردیں۔ یا آپ کو شہید کردیں یا آپ کو جلا وطن کردیں لیکن صورت اول زیادہ صحیح ہے۔ وعند اللہ مکرہم۔ اللہ تعالیٰ سے ان کی یہ چالیں مخفی نہ تھیں سب کی سب اس کے علم میں تھیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے مکر کا توڑ تھا۔ عندہ جزاء مکرہم وابطالا لہ۔ (مظہری) ۔ تزول۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ اپنی جگہ سے ٹل جائے۔ وہ اپنے مقام سے ہل جائے زال یزول زوال (باب نصر) سے۔ ان ۔ کی دو صورتیں ہیں (1) یہ ان مخففہ ہے جو ان ثقیلہ سے مخفف ہو کر ان بن گیا۔ اور یہ تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا : اور واقعی ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔ (2) ان نافیہ ہے اور لام تاکید نفی کے لئے آیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اور نہیں تھیں ان کی چالیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔
Top