Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ فُتِنُوْا : ستائے گئے وہ ثُمَّ : پھر جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا وَصَبَرُوْٓا : اور انہوں نے صبر کیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر جن لوگوں نے ایذائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا پھر جہاد کئے اور ثابت قدم رہے تمہارا پروردگار ان کو بیشک ان (آزمائشوں) کے بعد بخشنے والا (اور ان پر) رحمت والا ہے۔
(16:110) ثم ان ربک۔ یہ دلالت کرتا ہے اس امر پر کہ غافلون، خاسرون کا حال بلحاظ مرتبت ان اصحاب سے کتنا بعید ہے جن کا آیہ ہذا میں ذکر ہے۔ ان کے لئے غضب الٰہی و خسران اور ان کے لئے مغفرت ورحمت رب تعالیٰ ۔ ثم۔ پھر حرفِ عطف ہے۔ پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تاخیر خواہ بااعتبار زمانہ ہو یا بااعتبار مرتبہ۔ یا بلحاظ وضع ونسبت ہو یا بااعتبار نظام صناعی جیسے الا ساس اولا ثم البناء یعنی پہلے اساس (بنیاد) رکھی جاتی ہے پھر اس پر عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ دوسری دفعہ جو ثم آیا ہے وہ بااعتبار زمانہ تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔ من بعد ما قتنوا۔ آزمائش میں ڈالے جانے کے بعد (یعنی کفار کے ہاتھوں مصائب و آلام میں ڈالے جانے کے بعد ) جیسے حضرت حمار بن یاسر اور ان جیسے دیگر صحابہ کرام ؓ جن کو اسلام سے مرتد کرنے کے لئے روح فرسا تکالیف دی گئی تھیں۔ من بعدھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مذکوراتِ بالا۔ یعنی آزمائش میں پڑنے اور ہجرت اور جہاد اور صبر کی طرف راجع ہے۔ صاحب ضیاء القرآن فرماتے ہیں : یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سورت تو مکی ہے اس میں ہجرت اور جہاد کا ذکر کیسا۔ لیکن اول تو ابن عطبہ کی روایت میں ہے کہ یہ آیت مدنی ہے (اور مکی سورتوں میں مدنی آیتوں کی آمیزش کی مثالیں قرآن میں کثرت سے موجود ہیں) ۔ اور ہجرت سے مراد ہجرت حبشہ بھی ہوسکتی ہے اور جہاد اپنے لغوی معنوں میں (یعنی جدوجہد) پھر ان کے علاوہ صیغہ ماضی سے اخبار مستقبل کی مثالیں بھی قرآن میں شاذ نہیں۔
Top