Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 115
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : خنزیر وَمَآ : اور جس اُهِلَّ : پکارا جائے لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے علاوہ بِهٖ : اس پر فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوا غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنیوالا وَّ : اور لَا عَادٍ : نہ حد سے بڑھنے والا فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اس نے تم پر مردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کردیا ہے اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے (اس کو بھی) ہاں اگر کوئی ناچار ہوجائے تو بشرطیکہ گناہ کرنے والا نہ ہو اور نہ حد سے نکلنے والا تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
(16:115) ما اھل لغیر اللہ بہ۔ الہلال سے ہے الہلالمہینے کی پہلی اور دوسری تاریخ کے چاند کو کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اسے قمر کہا جاتا ہے اس کی جمع اھلۃ ہے الاھلال کے معنی چاند نظر آنے پر آواز کرنے کے ہیں۔ پھر یہ لفظ عام آواز بلند کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی سے محاورہ ہے اہل الصبی ولادت کے وقت بچے نے رونے میں آواز بلند کی۔ اور حاجیوں کے بآواز بلند لبیک اللہم لبیک کہنے کو بھی اھلال کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پکارنا۔ آواز لگانا۔ بلند آواز سے ذکر کرنا۔ نامزد کرنا۔ کسی چیز کو شہرت دینا سب کے معنی میں مستعمل ہے۔ اھل۔ اھلال سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اس جملہ میں ما اسم موصول ہے اور بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ہے۔ ما اھل بہ جس کا نام لے کر آواز بلند کی گئی۔ جس کا نام پکارا گیا۔ یعنی ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا گیا۔ اھل بمعنی ذبح کی سند کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول پیش کیا گیا ہے۔ اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوھا واذا لم تسمعوہم فکلوا فان اللہ قد احل ذبائہم وھو یعلم ما یقولون۔ (جب تم سنو کہ یہود و نصاریٰ غیر خدا کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں تو ان کا ذبیحہ نہ کھائو اور اگر نہ سنو تو کھالو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذبیحہ کو حلال کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں۔ تو گویا ما اھل بہ کا ترجمہ ہوا۔ ذبح کے وقت جس کا نام پکارا گیا۔ اور ما اھل لغیر اللہ بہ جسے نام لے کر غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا۔ مثلاً میں ذبح کرتا ہوں لات کے لئے (کہ ذبح لات کے نام پر ہوا ہے خدا کی ذات کے لئے نہیں) ذکر عند ذبحہ اسم غیرہ تعالیٰ (محمد مخلوف) اضطر۔ اضطرار (افتعال) سے ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ وہ بےاختیار کیا گیا وہ لاچار کیا گیا الضر (ض رر) کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل وعفت کی کمی۔ خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا۔ یا قلت مال کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا۔ اضطرار کے معنی کسی کو نقصان دہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے ہیں جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں : (1) ایک یہ کہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بناء پر ہو۔ مثلا مارپٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی کہ وہ کام کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑ کر اس سے کوئی کام کروایا جائے۔ مثلاً ثم اضطرہ الی عذاب النار۔ (2:126) پھر میں اس کو عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے لاچار کر دوں گا۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بناء پر ہو۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں (الف) کسی ایسے جذبے کے تحت وہ کام کر جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونے کا خوف ہو۔ مثلاً شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہو کر شراب نوشی یا قمار بازی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ (ب) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے کہ جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلاً بھوک سے مجبور ہو کر مردار کا گوشت کھانا۔ فمن اضطر فی مخمصۃ (5:3) ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے۔ آیۃ ہذا میں بھی یہی صورت ہے (نیز ملاحظہ ہو 6:145) باغ وعاد اصل میں باغی وعادو تھا۔ باغی۔ ضمہ ی پر دشوار تھا۔ جس کی وجہ سے گرگیا۔ یساکن ہوا۔ اب ی ساکن اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی باغ ہوا۔ عادو کی واو اسم فاعل میں کلمہ کے آخر میں واقع ہونے کی وجہ سے اور ما قبل مکسور ہونے کی وجہ سے یہو گئی اور پھر عمل متذکرہ بالا سے یگر گئی۔ غیر باغ ولا عاد جو لذت کا جو یا نہ ہو۔ اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو۔ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد کے بعد فلا اثم علیہ محذوف ہے یعنی بحالتِ لاچاری گناہ نہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو 2:173) ۔
Top