Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (لوگوں کے) امام (اور) خدا کے فرمانبرادار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
(16:120) امۃ۔ یعنی اللہ کی عبادت و فرمانبرداری اور طاعات وحسنات میں پوری ایک جماعت کے برابر اور قائم مقام۔ دوسرے معنی میں امام یا مقتدا کے ہیں جو امور خیر میں بطور نمونہ کام دے۔ علمبردار صداقت وحق۔ نیز جو دنیا بھر سے الگ تھلگ ہو۔ اس قوم کو بھی امۃ کہتے ہیں جس کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا ہو۔ جماعت ۔ طریقہ۔ دین اور مدت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہر وہ جماعت کہ جس میں کسی قسم کا کوئی رابطۂ اشتراک موجود ہے اسے بھی امت کہا جاتا ہے خواہ یہ اتحادواشتراک مذہبی وحدت کی بنا پر ہو یا جغرافیائی اور عصری وحدت کی وجہ سے ہو۔ قانتا۔ قنوت سے اسم فاعل۔ حالت نصب۔ فرماں بردار۔ اطاعت گذار۔؎ القنوت (باب نصر) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں جیسے کہ وقوموا للہ قنتین (2:238) اور خدا کے حضور ادب سے کھڑے رہا کرو۔ خشوع اور خضوع اور خاموشی کے ساتھ۔ حنیفا۔ یکسوئی سے حق کی طرف مائل ہونے والا۔ سب سے بےتعلق ہو کر ایک خدا کا ہو رہنے والا۔ حنیف کی جمع حنفائ۔ ہر وہ شخص جو بیت اللہ کا حج کرتا اور ختنہ کراتا۔ عرب کے لوگ اسے حنیف کہہ کر پکارتے تھے۔ یعنی یہ دین ابراہیم کا پابند ہے۔ امۃ۔ قانتا۔ حنیفا۔ شاکرا بوجہ عمل کان منصوب ہیں۔
Top