Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 86
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ١ۚ فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَۚ
وَاِذَا : اور جب رَاَ : دیکھیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا (مشرک) شُرَكَآءَهُمْ : اپنے شریک قَالُوْا : وہ کہیں گے رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں شُرَكَآؤُنَا : ہمارے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنَّا نَدْعُوْا : ہم پکارتے تھے مِنْ دُوْنِكَ : تیرے سوا فَاَلْقَوْا : پھر وہ ڈالیں گے اِلَيْهِمُ : ان کی طرف الْقَوْلَ : قول اِنَّكُمْ : بیشک تم لَكٰذِبُوْنَ : البتہ تم جھوٹے
اور جب مشرک اپنے (بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ پروردگار ! یہ وہی ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ تو وہ (ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور) ان سے کہیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو۔
(16:86) شرکاء ہم۔ اور شرکاء نا میں شریکوں سے مراد وہی دیوی دیوتا اور معبودانِ باطل ہیں جنہیں وہ شریک خدائی سمجھتے تھے۔ کنا ندعوا۔ ماضی استمراری جمع متکلم ” ہم پکارا کرتے تھے ہم عبادت کیا کرتے تھے۔ القوا۔ ماضی جمع مذکر غائب القائ۔ (باب افعال) سے۔ انہوں نے ڈالا۔ انہوں نے پھینکا۔ القاء کے معنی ہیں کسی چیز کو اس طرح ڈال دینا کہ وہ دوسرے کو سامنے نظر آئے۔ جیسے قالوا یموسی اما ان تلقی واما ان نکون نحن الملقین قال القوا فلما القوا سحروا اعین الناس۔ (7:115 ۔ 116) جادوگروں نے کہا اے موسیٰ یا تو تم (پہلے) ڈالو۔ ورنہ ہم ہی پہلے ڈالنے والے ہوجاتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تم ہی ڈالو ! پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ القی قولاً الی ۔۔ کسی سے کلام کرنا۔ والقی مودۃ الی۔ کسی سے دوستی یا محبت بڑھانا جیسے تلقون الیہم بالمودۃ (60:1) تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ والقی سلما الی۔۔ عاجزی پیش کرنا۔ جیسے والقوا الی اللہ یومئذن السلم۔ (16:87) اور وہ اس دن خدا کے حضور عاجزی پیش کردیں گے۔ اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے اس کے سامنے صلح و اطاعت کی طرح ڈال دیں گے۔ القوا میں ضمیر فاعل معبودانِ باطل کی طرف راجع ہے۔ اور الیہم میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الذین اشرکوا ہے۔ فالقوا الیہم القول انکم لکذبون۔ معبودانِ باطل مشرکین سے کہیں گے۔ یقینا تم جھوٹ بول رہے ہو۔
Top