Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں، پھر اس کے لئے جہنم کو (ٹھکانا) مقرر کر رکھا ہے، جس میں وہ نفرین سن کر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہو کر داخل ہوگا
(17:18 ) العاجلۃ۔ جلد ملنے والی۔ دنیا اور دنیا کی آسودگی مراد ہے عجل۔ عجلۃ سے اسم فاعل واحد مؤنث ہے۔ العاجلۃ صفت ہے اس کا موصوف الدار محذوف ہے العاجلۃ سے مراد دار دنیا ہے۔ عجلناہم نے جلدی کی۔ تعجیل (تعفعیل) مصدر سے۔ ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ عجلنا لہ۔ ہم اس کو جلدی دیدیتے ہیں فیھا۔ ای فی تلک الدار العاجلۃ۔ ای فی الدنیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الدار العاجلۃ۔ یعنی دار دنیا ہے۔ یصلھا۔ مضارع واحد مذکر غائب وہ داخل ہوگا۔ صلی یصلی (باب فتح) باب سمعمصدر صلی ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جہنم کی طرف راجع ہے۔ یصلھا وہ اس (جہنم) میں داخل ہوگا۔ مذموما۔ اسم مفعول ۔ مذمت کیا ہوا۔ ذم یذم (نصر) ذم ومذمۃ سے برائی کرنا۔ عیب جوئی کرنا۔ مذمت کرنا۔ اذمۃ۔ کسی کو پناہ دے کر اپنی حفاظت میں لینا۔ الذمامۃ۔ کفالت۔ ذمہ داری۔ انت فی ذمۃ اللہ۔ تو اللہ کی پناہ میں ہے۔ مدحورا۔ اسم مفعول۔ ٹھکرایا ہوا۔ راندہ ہوا۔ الدحر والدحور (باب نصر) کے معنی دھتکار دینے اور دور کردینے کے ہیں۔ آیت ہذا میں لمن نرید بدل البعض ہے اور اس کا مبدل منہ لہ جس کا مرجع من ہے جو ابتداء آیت میں ہے ۔ من اور لہ اگرچہ لفظاً واحد ہیں لیکن معنی ً جمع ہیں۔ لہٰذا آیت کا ترجمہ ہوگا جو لوگ طلبگار ہیں دار دنیا کے ہم ان میں سے جس کو چاہیں جلدی ہی اس دنیا میں جتنا چاہیں دے دیتے ہیں۔ ثم جعلنا لہ میں ہُ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من نرید ہے۔ اور یصلھا میں ضمیر فاعل بھی من نرید کے لئے ہے۔
Top