Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کردیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا
(17:5) فاذا جاء وعد اولہما۔ پھر جب ان دوباریوں میں سے پہلی مرتبہ کے وعدہ کا وقت آیا۔ بعثنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے بھیجا۔ بعث سے۔ یہاں بعثت سے مراد تشریعی بعثت نہیں کہ کسی رسول یا نبی کو بھیجا گیا بلکہ محض تکوینی بعثت مراد ہے۔ پھر تشریعی بعثت کے لئے بعث الی استعمال ہوا ہے کہ نبی ہمیشہ کسی قوم کی طرف اس کی بہتری کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ اور یہاں بعث علی استعمال ہوا ہے کہ سزا اور سرزنش کے لئے مبعوث کو بھیجا گیا۔ مفسرین کے نزدیک یہاں 586؁ ق۔ م میں بخت نصر تاجدار بابل ونینوا کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی تباہی و بربادی کی طرف اشارہ ہے۔ عبادا۔ عبد کی جمع۔ بندے ۔ عبادا لنا۔ ہمارے بندے (بلا تخصیص ان کے اعتقادات کے) یہاں مراد ہے۔ وہ انسان جو عذاب الٰہی کے کارندوں کی حیثیت سے ان پر مسلط کئے گئے تھے۔ اولی۔ والے ۔ اولوا سے اولوا جمع ہے اس کا واحد نہیں۔ اگرچہ بعض ذوکو اس کا واحد بیان کرتے ہیں اولوا بحالت رفع اور اولی بحالت نصب وجر۔ اولی باس شدید۔ سخت قوت والے۔ سخت جنگ جو۔ باس۔ قوت، بہادری۔ خوف۔ عذاب ۔ جنگ۔ لا باس کوئی خوف نہیں۔ لا باس فی ذلک۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ المفردات میں ہے کہ البؤس والباس والباساء تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقروفاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباساء اور الباس جسمانی زخم اور نقصان کے لئے آتا ہے مثلاً واللہ اشد باسا واشد تنکیلا (4:84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا دینے کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے۔ جاسوا۔ ماضی جمع مذکر غائب، وہ گھس پڑے۔ وہ داخل ہوگئے جوس سے (باب نصر) لوٹ مار کے لئے گھس پڑنا۔ خلل۔ درمیان ۔ بیچ۔ وسط۔ خلل کی جمع ہے۔ دو چیزوں کی درمیانی کشادگی۔ فجاسوا خلل الدیار۔ وہ (تمہاری) آبادیوں میں (لوٹ مار کے لئے) گھس گئے۔ وکان وعدا مفعولا۔ میں وعدا۔ کان کی خبر کی وجہ سے منصوب ہے۔ اسم کان محذوف ہے تقدیر کلام ہے وکان (وعد العقاب) وعدا مفعولا ای لا بد ان یفعل۔ اور سزا و عذاب کا وعدہ پورا ہوکر رہنا تھا۔
Top