Anwar-ul-Bayan - Maryam : 10
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : کردے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : فرمایا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا تُكَلِّمَ : تو نہ بات کرے گا النَّاسَ : لوگ (جمع) ثَلٰثَ : تین لَيَالٍ : رات سَوِيًّا : ٹھیک
کہا کہ پروردگار میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو کر تین (رات دن) لوگوں سے بات نہ کرسکو گے
(19:10) ایۃ۔ کوئی ایسی نشانی کہ جس سے معلوم ہو کہ میری التجاء منظور ہوگئی ہے تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں۔ علامۃ علی تحقق المسئول لا شکرک (نشانی کہ جس سے میں سمجھ جائوں کہ اب ظہور وعدہ کا وقت آپہنچا اور میں بالکل مطمئن ہوجائوں کہ تیرے فرشتہ نے جو بشارت مجھے پہنچائی ہے وہ تیری ہی طرف سے ہے۔ (ضیا القرآن) ۔ الا تکلم الناس۔ ای ان لا۔ لا تکلم۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ تو کلام نہیں کرسکے گا تو بول نہیں کرسکے گا۔ سویا۔ بھلا چنگا۔ جو مقدار اور کیفیت دونوں حیثیت سے افراط و تفریط سے محفوظ ہو۔ درست۔ تندرست۔ صحیح۔ سالم ۔ غیر ناقص۔ رجل سوی۔ وہ مرد جو اپنی خلقت میں ہر عیب۔ نقص، افراط تفریط سے پاک ہو۔ سویا حال ہے اور تکلم کا فاعل اس کا ذوالحال ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ سویا کا تعلق ثلث لیال سے ہے۔ یعنی تین کامل راتیں فائدہ آیت نمبر 4 میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا ہے اور قال سے مراد قال زکریا ہے۔ آیت نمبر 7 میں ی زکریا سے لے کر من قبل سمیاتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے حضرت زکریا کی دعا کے جواب میں۔ اس سے قبل فاجاب اللہ دعاء ہ وقالمقدر ہے۔ آیت نمبر 9 میں۔ قال کذلک میں قال کی ضمیر فاعل کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے اور یہ کلام بلاواسطہ فرشتہ کے ارشاد فرمایا۔ ایسا ہی ہوگا۔ اور اگلی عبارت قال ربک ھو علی ھین وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا۔ بھی ارشاد ربانی کا حصہ ہی ہے ۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ ارشاد ہوا۔ ایسا ہی ہوگا۔ تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لئے آسان ہے اور اس سے پیشتر میں نے ہی تو تم کو پیدا کیا تھا درآنحالیکہ تم تو کچھ بھی نہ تھے۔ اسی طرح آیت نمبر 10 قال ایتک۔۔ سویا۔ میں قال کی ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور یہ جواب بھی فرشتہ بشارت کے واسطہ سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو دیا گیا۔
Top