Anwar-ul-Bayan - Maryam : 68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّاۚ
فَوَرَبِّكَ : سو تمہارے رب کی قسم لَنَحْشُرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور جمع کریں گے وَالشَّيٰطِيْنَ : اور شیطان (جمع) ثُمَّ : پھر لَنُحْضِرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور حاضر کرلیں گے حَوْلَ : ارد گرد جَهَنَّمَ : جہنم جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
تمہارے پروردگار کی قسم ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی پھر ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے (اور وہ) گھنٹوں پر گرے ہوئے (ہوں گے)
(19:68) فوربک۔ سو (اے محمد ﷺ ) تیرے رب کی قسم۔ لنحشرنہم۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ نحشرن۔ مضارع جمع متکلم بانون ثقیلہ ہم ان کو ضرور بالضرور جمع کریں گے۔ والشیطن۔ میں وائو عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور وائو بمعنی مع (معیۃ) بھی۔ یہاں معیت کا معنی زیادہ مناسب ہے۔ یعنی ہم انہیں بمع شیاطین کے جمع کریں گے۔ لنحضرنہم۔ مضارع جمع متکلم بالام تاکید ونون ثقیلہ ہم ضرور ان کو لا حاضر کریں گے۔ حول۔ گرد۔ حال یحول سے مصدر ہے۔ الحول کے معنی دراصل کسی چیز کے متغیر ہونے کے ہیں اور دوسری چیزوں سے الگ ہونے کے ہیں۔ تغییر کے اعتبار سے حال الشیء یحول حوولا۔ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی شے کے متغیر ہونے کے ہیں ۔ اور الگ ہونے کے اعتبار سے حال بینی ووبینک کذاکا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی۔ حول بمعنی سال بھی ہے۔ جثیا۔ زانو پر گرے ہوئے۔ اوندھے گرے ہوئے۔ جثا یجثوا (باب نصر) جثو وجثیا۔ الرجل۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنا۔ یہ عتا یعتو (باب نصر) عتوا وعتیا کی طرح ہے۔ جثیا جاث صیغہ صفت کی جمع بھی ہوسکتی ہے اور مصدر بھی بمعنی اسم فاعل جاث کی جمع ہونے کی صورت میں جثی اصل میں فعول کے وزن پر جثو وتھا ضمہ کے بعد دو وائو کا اجتماع ثقیل تھا۔ لہٰذا تخفیف کے لئے ثاء کو کسرہ دیا۔ وائو اول کو بوجہ سکون وکسرہ ما قبل یاء سے بالا۔ اب وائو ما قبل یاء ساکن کو یاء سے بدلا۔ پھر یا کو یا میں مدغم کیا۔ پھر جیم کو مابعد کی رعایت سے کسرہ دیا۔ جثیہوگیا۔
Top