Anwar-ul-Bayan - Maryam : 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا وہ لِيْ غُلٰمٌ : میرے لیے۔ میرا۔ لڑکا وَّكَانَتِ : جبکہ وہ ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ وَّقَدْ بَلَغْتُ : اور میں پہنچ چکا ہوں مِنَ : سے۔ کی الْكِبَرِ : بڑھاپا عِتِيًّا : انتہائی حد
انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا (پیدا) ہوگا جس حال میں کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں
(19:8) انی یکون۔ کیف اومن این یکون۔ کیسے اور کہاں سے۔ کیونکر (میرے ہاں بیٹا ہوسکتا ہے) ۔ عتیا۔ عتا یعتوکا مصدر ہے۔ جوہری کا بیان ہے کہ یہ اصل میں عتوہی تھا۔ اس کے ایک ضمہ کو کسرہ سے بدلا۔ تو وائو بھی یاء سے بدل گیا۔ اور عتیاہو گیا۔ پھر ایک کسرہ کے ساتھ دوسرا کسرہ بھی لگا دیا گیا۔ تاکہ اس تبدیلی کی مزید تاکید ہوجائے اس طرح عتیاہو گیا۔ عتوکا معنی ہے سرکشی نافرمانی۔ اطاعت سے اکڑجانا۔ تکبر کرنا۔ حد سے بڑھ جانا۔ حکم عدولی کرنا۔ قرآن مجید میں ہے فعتوا عن امر ربہم۔ (5:44) تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ دوسری جگہ ہے بل لجوا فی عتو ونفور (67:21) لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں عتیا سے کمال پیری مراد ہے۔ جب آدمی کے اعضاء قابو میں نہیں رہتے اور وہ اپنی مرضی سے ان سے کام نہیں لے سکتا۔ وقد بلغت من الکبر عتیا۔ اور میں بڑھاپے کی اس منزل تک پہنچ گیا ہوں جہاں آدمی کے اعضاء بھی اس کو جواب دے جاتے ہیں۔
Top