Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : آیا، اُن رَسُوْلٌ : ایک رسول مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کی طرف مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس نَبَذَ : پھینک دیا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنَ : سے الَّذِیْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : کتاب دی گئی كِتَابَ اللہِ : اللہ کی کتاب وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ پیچھے کَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہی نہیں
اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے پیغمبر (آخرالزمان ﷺ آئے اور وہ ان کی (آسمانی) کتاب کی تصدیق بھی کرتے ہیں تو جن لوگوں کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایک جماعت نے خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا گویا وہ جانتے ہی نہیں
(2:101) لما جب۔ لما کئی طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ (1) بطور حرف شرط۔ اس صورت میں ماضی کے دو و جملوں پر آتا ہے مثلاً آیت ہذا کہ ماضی کے دو جملوں جاء ہم رسول ۔۔ نبذ فریق جو بالترتیب جملہ شرطیہ، جملہ جزائیہ ہیں۔ یا اور جگہ قرآن مجید میں ہے فلما نجکم الی البر اعرضتم (17:67) پھر جب وہ (ڈوبنے سے) بچا کر تم کو خشکی کی طرف لے آیا تم نے منہ پھیرلیا۔ جب کے معنی میں اسم ظرف بھی ہے۔ ای۔ اذ (2) بطور حرف استثناء بمعنی الا مگر۔ مثلاً ان کل نفس لما علیہا حافظ (86:4) کوئی نفس نہیں مگر اس پر نگران (فرشتہ) مامور ہے (3) حرف جازم فعل، مضارع پر داخل ہوکر اس کو جزم دیتا ہے اور مضارع کو ماضی منفی مؤکد کردیتا ہے۔ (ا) ماضی فعل کی نفی زمانہ حال تک باستمرار چلی آتی ہے۔ (ب) جس فعل کی نفی ہوتی ہے اس کے ثبوت (یعنی ہوجانے) کی توقع رہتی ہے۔ مثلاً (1) بل لما یذوفوا عذاب (38:8) بلکہ انہوں نے میرے عذاب کا مزہ ابھی تک چکھا ہی نہیں (گو ان کو یہ مزہ چکھنا متوقع ہے) (2) ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (49:14) اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا و (گو اس کا تمہارے دلوں میں داخل ہونا متوقع ہے) (3) لما یہ لم یلم (باب نصر) کا مصدر بھی ہے۔ اپنا اور دوسروں کا حصہ کھا لینا لممت اجمع۔ میں نے سب سمیٹ لیا۔ قرآن مجید میں ہے وتاکلون التراث اکلالما (90:19) اور تم میراث کے مال کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو 2:214) لما جاء ۔۔ ما معہم۔ جملہ شرطیہ اور بنذ فریق ۔۔ ظھورہم جواب شرط اور کا لہم لا یعلمون موضع حال میں ہے مصدق۔ صفت ہے رسول کی۔ ما معھم۔ موصول وصلہ مل کر مجرور ہے لام حرف جار کا ۔ اور مجرور مل کر متعلق مصدق کا۔ کانھم لا یعلمون ۔ کان حرف مشبہ بالفعل ۔ ھم اس کا اسم لا یعلمون فعل بافعل ہے ۔ فعل اپنے فاعل کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ خبر یہ ہو کر کان کی خبر۔ کان اپنے اسم اور خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہوکر فریق سے حال ہے۔ گویا وہ جانتے ہی نہیں۔ ورائ۔ اصل میں مصدر ہے جس کو بطور ظرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی اضافت فاعل کی طرف بھی ہوتی ہے اور مفعول کی طرف بھی۔ اس کا معنی ہے آڑ۔ حد فاصل۔ کسی چیز کا آگے یا پیچھے ہونا۔ علاوہ اور سوا ہونا۔ کتب اللہ وراء ظھورھم۔ انہوں نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا۔ یعنی قابل اعتنا نہ سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا۔
Top