Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
(کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کرلیا ہے) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے ؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
صبغۃ اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کا رنگ۔ صبغۃ اسم مصدر ہے۔ رنگ کی ہیئت اور کیفیت کو صبغۃ کہتے ہیں۔ صبغۃ اللہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔ (1) یہ امنا (آیت 136 متذکرہ بالا) کا مفعول مطلق من غیر لفظ ہے اور مدیں وجہ منصوب ہے اور صبغۃ اللہ سے اللہ کا دین مراد لیا ہے۔ اور ہم ایمان لائے اللہ کے دین پر۔ (2) یہ ملۃ ابراہیم سے بدل ہے اور بدیں وجہ منصوب ہے ملت ابراہیم سے مراد اللہ کا دین لیا ہے۔ (3) اس سے قبل عبارت مقدرہ ہے۔ مثلاً تقدیر کلام ہے (1) علیکم صبغۃ اللہ اللہ کے رنگ کو اپنے اوپر لازم پکڑو۔ (2) صبغنا اللہ صبغتہ۔ اللہ نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ مصدر کو تاکید کے لیے بطور مفعول مطلق لایا گیا ہے۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ صبغۃ اللہ سے ختنہ مراد ہے ۔ کیونکہ اس سے مختون خون آلود ہوجاتا ہے۔ (5) تفہیم القرآن میں ہے کہ مسیحیت کے ظہور سے پہلے یہودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص ان کے مذہب میں داخل ہوتا تو اسے غسل دیتے تھے اور اس غسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گنا دھل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کرلیا، یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کرلی۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اصطباغ (بپتسمہ) ہے ۔۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے۔ اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے۔ ومن احسن افعل التفضیل صیغہ ہے۔ ضمیر اس میں ھو راجع طرف من کے ہے جو ممیز ہے اور صبغۃ تمیز (اور بدیں وجہ یہ منصوب ہے) ۔ ونحن لہ عبدون ۔ جملہ حالیہ ہے۔ لہ میں ضمیر ہ اللہ کی طرف راجع ہے عبدون اسم فاعل جمع مذکر۔ عبادت کرنے والے۔ بندگی کرنے والے۔
Top