Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
ہاں جو توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کرلیتے اور (احکام الٰہی کو) صاف صاف بیان کردیتے ہیں تو میں ان کے قصور معاف کردیتا ہوں اور میں بڑا معاف کرنے والا (اور) رحم والا ہوں
(2:160) الا الذین ۔۔ الخ استثناء متصل ہے اور ضمیر ہم (جو یلعنم میں ہے) مستثنی، منہ ہے۔ تابوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ توبۃ (باب نصر) مصدر۔ انہوں نے توبہ کی۔ وہ باز آگئے۔ جب توبۃ کا تعدیہ الیٰ کے ذریعہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور انابت کے معنی ہوتے ہیں۔ اور جب تعدیہ علی سے ہوتا ہے تو توبہ قبول کرنے کے معنی آتے ہیں۔ بندہ کا توبہ کرنا۔ معصیت کے بعد اسے چھوڑ کر نیکی اور اطاعت کی طرف واپس آنا ہے۔ اصلحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب اصلاح (افعال) مصدر انہوں نے اپنی اصلاح کی۔ وہ سنور گئے انہوں نے اپنے کام کو درست کیا۔ انہوں نے نیک کام کئے۔ بینوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ بتیین (تفعیل) مصدر انہوں نے بیان کیا۔ مطلب یہ ہے کہ علماء اہل کتاب جو رسول مقبول ﷺ کے متعلق کتب سماویہ میں مندرج صفات کو خلائق سے وابستہ چھپا رکھتے تھے۔ اور بدیں وجہ مستوجب لعن ٹھہرے۔ ان میں سے جو توبہ کرکے اپنے اس گناہ سے باز آگئے۔ اپنے آپ کی اصلاح کرلی۔ اور حقائق کو کما حقہ۔ لوگوں سے بیان کردیا (تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے گا) ۔ اولئک۔ سے مراد الذین تابوا واصلحوا وبینوا ہیں۔ اتوب علیہم۔ اتوب۔ مضارع واحد متکلم۔ چونکہ تعدیہ علی کے ساتھ ہیں اور فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے اس لئے مطلب ہوا کہ : میں (یعنی اللہ) ان کی توبہ قبول کرلوں گا۔ ان کو معاف کر دوں گا ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ہے۔ التواب۔ فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ بہت توبہ قبول کرنے والا۔ توبۃ سے مشتق ہے اگر اس کی نسبت بندہ سے ہو۔ تو معنی ہوں گے بہت توبہ کرنے والا۔
Top