Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 172
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
مسیح ؑ کو تو اس میں ہرگز کوئی عار نہیں ہے کہ وہ بنے اللہ کا بندہ اور نہ ہی ملائکہ مقربین کو اس میں کوئی عار ہے (کہ انہیں اللہ کا بندہ سمجھا جائے) اور جو کوئی بھی عار سمجھے گا اس کی بندگی میں اور تکبر کرے گا تو اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا
آیت 172 لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَلاَ الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ط مسیح علیہ السلام کو تو اللہ کا بندہ ہونے میں اپنی شان محسوس ہوگی۔ جیسے ہم بھی حضور ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں : وَنَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ تو عبدیت کی شان تو بہت بلند وبالا ہے ‘ رسالت سے بھی اعلیٰ اور ارفع۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے ‘ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ چناچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے یہ کوئی عار کی بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔
Top