Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
(2:21) اعبدوا فعل امر، جمع مذکر حاضر، عبادۃ وعبودۃ مصدر (باب نصر) تم بندگی کرو، تم عبادت کرو ۔ لعلکم۔ لعل کی اصل وضع امید یا اندیشہ کے لئے ہے لیکن جس چیز کی امید کی جائے اس کا ممکن ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے لعل الشباب یعود۔ کہنا غلط ہے کیونکہ جوانی کا لوٹنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کا جو قول لعلی ابلغ الاسباب ۔ (شاید میں آسمانی اسباب تک پہنچ جاؤں) آیا ہے۔ (حالانکہ اس کا آسمان تک پہنچانا ممکن تھا) اس کی یہ وجوہات دی گئی ہیں۔ (1) اس کی جہالت کہ وہ جانتا ہی نہ تھا کہ آسمان کہاں ہے اور یہ کہ اس کا وہاں تک پہنچانا ممکن ہے۔ (2) فرعون اہل دربار کو دھوکہ دینا چاہتا تھا۔ وہ فریب کے ساتھ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اس کے لئے آسمان تک پہنچنا، ممکن ہے۔ اگرچہ لعل امید اور اندیشہ کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے لیکن جب اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اس کے معنی میں قطعیت آجاتی ہے۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشہ کے معنی مراد لینا صحیح نہیں۔ لعلکم : شاید کہ تم۔ امید ہے کہ تم۔ تتقون۔ مضارع جمع مذکر حاضر، اتقاء (افتعال) مصدر۔ تم بچتے ہو۔ تم پرہیز کرتے ہو، تم پرہیزگار ہوتے ہو۔ لعلکم تتقون ۔ شاید کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
Top