Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
(2:40) یبنی اسرائیل۔ یاء حرف نداء بنی اسرائیل مضاف، مضاف الیہ مل کر منادی۔ بنی اسرائیل اصل میں بنیں تھا۔ ن جمع اضافت کے سبب گرگیا۔ اسرائیل منصوب بوجہ غیر منصرف عجمہ و معرفہ ہونے کے ہے۔ اسرائیل کے معنی عبد اللہ۔ یعنی اللہ کا بندہ ہے یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے بنی اسرائیل اے اسرائیل کے بیٹو، یا اسے اسرائیل کی اولاد۔ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اذکروا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ذکر (باب نصر) تم یاد کرو۔ نعمتی۔ مضاف مضاف الیہ ۔ میری نعمتیں، میرے احسان۔ یہاں نعمت لفظاً واحد ہے لیکن اس کے معنی جمع کے ہیں کیونکہ نعمت ایک نہ تھی بلکہ غیر متناہی تھیں۔ ی ضمیر واحد متکلم کی ہے۔ میری نعمتیں۔ اوفوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ایفاء (افعال) تم پورا کرو۔ عھدی۔ مضاف مضاف الیہ ۔ میرا عہد۔ ادف۔ مضارع کا صیغہ واحد متکلم ۔ ایفاء (افعال) مصدر، میں پورا کروں گا۔ بعھدکم ۔ یعنی وہ وعدہ جو میں نے تم سے کیا ہے اوف اصل میں اوفی تھا۔ لیکن اوف بعھدکم جملہ جزاء ہے جیسا کہ جملہ اولیٰ شرطیہ کی خبر دے رہا ہے اس لئے اوف میں ی حذف ہوگئی۔ وایای فارھبون۔ واؤ عاطفہ ہے ایای میں فعل محذوف ہے گویا عبارت یوں ہے ایای ارھبوا۔ ایای۔ ضمیر منصوب منفصل مفعول ہے۔ اور حصر کا فائدہ دیتی ہے۔ اور مفعول کو تخصیص کے لئے فعل سے مقدم لایا گیا ہے (ملاحظہ ہو 1:4) ۔ ارھبوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ترجمہ ہوگا۔ اور تم صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ فارھبون۔ دوسرا جملہ ہےجزا کا ہے۔ اس سے قبل جملہ شرطیہ محذوف ہے گویا کلام یوں ہے ان کنتم راھبین شیئا فارھبونی۔ اگر تم کسی شے سے ڈرتے ہو تو مجھ سے ڈرو۔ ارعبون۔ ارھبوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہےوقایہ اور ی متکلم محذوف ہے ارھبوا رھبۃ۔ مصدر باب سمع سے ہے۔ رھبۃ ایسے خوف یا ڈر کو کہتے ہیں۔ جس میں احتیاط اور اضطراب و بےچینی شامل ہو۔
Top