Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کرسکیں
(2:48) لاتجری۔ فعل نہی واحد مؤنث حائب (جس کا مرجع نفس ہے) جزاء (باب ضرب) وہ کام آئے گی۔ وہ بدلہ ہوگی۔ شیئا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔ (1) اگر شیئا سے مراد حق ہو تو اس وقت لفظ شیئا آیہ میں مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اور آیہ کے معنی ہوں گے کہ کوئی کسی کے لئے حق کا بدلہ نہ دے گا۔ (2) اگر شیئا سے مراد جزاء ہو تو مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا۔ اور آیت کے معنی ہوں گے ، کہ کوئی کسی کو بدلہ نہ دے گا۔ خواہ کسی قسم کا بدلہ دینا ہو۔ (3) بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کوئی کسی کے کچھ کام نہ آویگا۔ (4) یہ بھی کہا ہے کہ کوئی قیامت کی سختیوں اور عذاب میں کسی کے لئے کفایت نہ کرے گا۔ لاتجری ۔۔ الخ یوما کی صفت ہے۔ شفاعۃ۔ شفاعت شفع بمعنی جفت ہے۔ یعنی طاق کی ضد۔ گویا شفاعت کرنے والا۔ اپنے آپ کو اس کے ساتھ ملا کر (کہ جس کی یہ سفارش کرتا ہے) اس اکیلے کو جوڑا کرتا ہے۔ لا یوخذ۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب اخذ (باب نصر) مصدر وہ نہیں لیا جائے گا۔ منھا۔ ضمیر ھا کا مرجع نفس عاصیہ (گنہگار شخص بھی ہوسکتا ہے اور نفس شافعہ ) سفارش کرنے والا شخص بھی، راجع قول نفس عاصیہ ہے۔ عدل کے معنی برابری کے ہیں ۔ چونکہ معارضہ اور فدیہ دے کر دونوں برابر ہوجاتے ہیں اس لئے معارضہ اور فدیہ اور بدل کو بھی عدل کہنے لگے۔ اور اسی لئے انصاف کو بھی عدل کہتے ہیں۔ ولاہم ینصرون ۔ واؤ عاطفہ لا ینصرون۔ مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
Top