Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
الذین امنوا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان لاچکے ہیں ۔ اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟ صاحب تفسیر ماجدی رقم طراز ہیں۔ جو آخری رسول اور آخری کتاب پر (ایمان لاچکے ہیں) یعنی مسلمان ہوچکے ہیں۔ ایمان لانے کے معنی۔ کل عقائد ضروریہ کے تسلیم کرلینے کے ہیں ۔ توحید پر ایمان۔ رسالت پر ایمان۔ فرشتوں پر ایمان۔ آسمانی کتابوں پر ایمان، سب کچھ اس میں شامل ہے اور الذین امنوا مطلق صورت میں قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی آیا ہے مراد اس سے مسلمان ہی ہیں۔ الذین ھادوا۔ جو یہودی ہوئے۔ ھادوا ماضٰ کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے ھود (باب نصر) مصدر سے النصرے جمع معرفہ۔ عیسائی لوگ ، یہ نصران کی جمع ہے جیسے ندامی جمع ہے ندمان کی۔ الصبئین ایک مذہبی فرقہ کا نام۔ جس کے عقائد کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ عراق۔ روم ، شام ، الجزیرہ میں آباد تھے۔ لیکن ان ممالک میں جب دوسرے مذاہب کا غلبہ ہوا یہ نصاری سے جا ملے لیکن خفیہ طور پر بت پرستی کرتے رہے۔ اب بھی اس لادینی بت پرستی کے پیروکار کہیں کہیں موجود ہیں لیکن اپنے اعتقادات کو نہایت سختی سے چھپاکر رکھتے ہیں ۔ لفظ صابی کے عربی ہونے میں علماء میں اختلاف ہے۔ من امن باللہ۔ میں من موصولہ ہے اور امن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا۔ اپنی جملہ تراکیب نحوی کے ساتھ اس کا صلہ ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں میں سے (جو بیشتر ایمان لاچکے ای الذین امنوا) یہودیوں میں سے نصاری میں سے۔ اور صابین میں سے جو مسلمان آئندہ زمانہ میں بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے گا اور جو یہودی، نصاری یا صابئین اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے۔ ان کو ان کے رب کے ہاں اجر ملے گا۔ اور ان کے لئے نہ کوئی نادیشہ ہوگا اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب تفسیر لکھتے ہیں کہ : یعنی اللہ کی ذات وصفات پر ایمان لائے جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے۔ اور وہ ایمان پر قسم کی شرکت آمیزی سے پاک ہو۔ اس ایمان باللہ کے تحت میں اس کے سارے لوازم و تضمنات بھی داخل ہیں ورنہ خدا پر مطلق ایمان تو کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر انسان کا ہے۔ اور ان لوازم توحید میں سب سے اونچے نمبر پر ایمان بالرسل ہے کہ بندوں کا صحیح تعلق اللہ کے ساتھ قائم کرنے والی اور اس کا سیدھا راستہ بتانے والی ذات رسول ہی کی ہوتی ہے۔ یوم آخرت پر ایمان لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ سارے احکامات آخرت پر ایمان لایا جائے۔ فائدہ : جلالین میں ہے : الذین امنوا۔ ای امنوا بالانبیاء من قبل ۔ بیضاوی اس کے معنی لکھتے ہیں ۔ الذین امنوا بالسنتھم جو محض زبانی ایمان لائے۔ اس کے علاوہ مفسرین کے اور اقوال بھی ہیں (ملاحظہ ہو روح المعانی) فلھم میں فاء جزائیہ ہے۔ اس سے قبل جملہ من امن ۔۔ عمل صالحا جملہ شرطیہ ہے اور بعد کی عبارت ۔۔ یحزنون تک جزائیہ ہے۔ فائدہ : صائبین۔ صابی فرقہ کے لوگ، یہ ایک ستارہ پرست قوم تھی جو بابل اور بلاد عراق میں آباد تھی۔ اس لفظ کے عربی ہونے میں اختلاف ہے عراق پر مختلف ادوار میں بیرونی اقوام کی فتح یابی کی صورت میں ان میں سے بعض فاتح قوم کا مذہب اختیار کرلیتے رہے۔ جب عراق، شام اور مصر میں اسلام کا غلبہ ہوا تو ان میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔ کچھ کھلم کھلا اپنے مذاہب پر قائم رہے۔ اور کچھ اپنے قدیم دستور پر تقیہ کا پردہ ڈال کر کافرانہ اعمال میں مصروف ہوگئے۔ فرقہ اسماعیلیہ کی حیلہ گری اسی فرقہ کے تقیہ کی ایک نمود ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو احکام القرآن للجصاص)
Top