Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ
وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا الرَّحْمٰنُ : اللہ وَلَدًا : ایک بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ عِبَادٌ : بندے مُّكْرَمُوْنَ : معزز
اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے وہ پاک ہے (اسکے نہ بیٹا ہے نہ بیٹی) بلکہ (جن کو یہ لوگ اس کے بیٹے اور بیٹیاں سمجھتے ہیں) وہ اس کے عزت والے بندے ہیں
(21:26) اتخذ ولدا۔ الاخذ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا۔ جمع کرلینا ۔ اور احاطہ میں لے لینا۔ اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑنے کی صورت میں ہوتا ہے مثلاً معاذ اللہ ان ناخذ الا من وجدنا متاعنا عندہ (12:79) خدا بچائے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا ہم کسی اور کو پکڑیں۔ اور کبھی غلبہ کی صورت میں مثلاً لا تاخذہ سنۃ ولا نوم (2:225) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی ہے اور نہ ہی نیند۔ اس سے الاتخاذ (افتعال) ہے اور یہ دومفعولوں کی طرف متعدی ہو کر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے لا تتخذوا الیہود والنصاری اولیاء (5:51) یہود و نصاری کو دوست نہ بنائو۔ اتخذ۔ اس نے بنالیا۔ اس نے اختیار کیا۔ ولدا۔ الولد جو جنا گیا ہو۔ یہ لفظ واحد ۔ جمع۔ مذکر۔ مؤنث چھوٹے بڑے سب پر بولا جاتا ہے۔ والد جس کے ہاں جنا گیا ہو۔ والدۃ جس نے جنا ہو۔ والذین ماں باپ۔ ولد بیٹا۔ بیٹی۔ اولاد سب کے لئے آتا ہے۔ وقالوا اتخذ الرحمن ولدا۔ ای وقالوا اتخذ الرحمن الملئکۃ ولدا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ بنالیا ہے رحمن نے (فرشتوں کو) اولاد۔ عرب کے کئی قبائل مثلاً بنی خزاعہ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔ یہود و نصاریٰ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ یہاں اس بہتان صریح کی نفی کی جا رہی ہے۔ بل عباد مکرمون۔ بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں۔ یعنی ملائکہ۔ عزیر (علیہ السلام) مسیح (علیہ السلام) وغیرہ۔
Top