Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَنَّ : کہ السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین كَانَتَا : دونوں تھے رَتْقًا : بند فَفَتَقْنٰهُمَا : پس ہم نے دونوں کو کھول دیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے حَيٍّ : زندہ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا ؟ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟
(21:30) کانتا رتقا۔ دونوں باہم ملے ہوئے تھے۔ جڑے ہوئے تھے۔ رتقا ملا ہوا جڑا ہوا۔ رتق رتق یرتق کا مصدر ہے۔ رتق کے اصل معنی ہیں جڑ جانا۔ بند ہوجانا خواہ خلقی طور پر خواہ صناعی طور پر۔ یہاں مصدر بمعنی اسم فاعل یا اسم مفعول کے ہے۔ ففتقنا ہما۔ پھر ہم نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا الفتق (باب ضرب) کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کردینے کے ہں۔ اور یہ رتق کی ضد ہے۔ تخلیق عالم کا ذکر کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں :۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی ابتدائی نشو و نما کے جو نظرئیے تسلیم کر لئے گئے ہیں یہ اشارات بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان بنیادوں پر شرح و تفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا۔ یہ نظرئیے کتنے ہی مستند تسلیم کر لئے گئے ہوں لیکن پھر بھی نظرئیے ہیں اور نظریات جزم و یقین کے ساتھ حقیقت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ پھر اس سے کیا فائدہ کہ ان کی روشنی میں قرآن کے مجمل اور محمل اشارات کی تفسیر کی جائے۔ لیکن کل کو کیا کریں گے اگر ان نظریوں کی جگہ دوسرے نظرئیے پیدا ہوگئے۔ صاف بات یہی ہے کہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم و ادراک کے ذریعے معلوم نہیں کرسکتے۔ اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیق نہیں ہے خدا کی قدرت و حکمت کی طرف انسان کی توجہ دلانا ہے۔ کل شیء حی۔ ہر جاندار چیز۔ لفظ کل محاورہ میں تقریبا کل یا بہت بڑی اکثریت کے مرادف مستعمل ہے۔ اس لئے اگر کسی جاندار کی پیدائش کا اس قاعدے سے استثناء ثابت ہوجائے تو یہ عموم قانون کے منافی نہیں۔
Top