Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 5
بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ١ۖۚ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَضْغَاثُ : پریشان اَحْلَامٍ : خواب بَلِ : بلکہ افْتَرٰىهُ : اسنے گھڑ لیا بَلْ هُوَ : بلکہ وہ شَاعِرٌ : ایک شاعر فَلْيَاْتِنَا : پس وہ ہمارے پاس لے آئے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی كَمَآ : جیسے اُرْسِلَ : بھیجے گئے الْاَوَّلُوْنَ : پہلے
بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں (نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے (نہیں) بلکہ یہ شعر جو اس) شاعر (کا نتیجہ طبع) ہے تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے
ّ (21:5) اضغاث احلام۔ مضاف مضاف الیہ۔ اضغاث ضغث کی جمع ہے جس کے معنی خشک گھاس یا شاخیں جو انسان کی مٹھی میں آجائیں۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے :۔ خذ بیدک ضغثا (38:44) اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر گھاس لو۔ احلام حلم کی جمع ہے جس کے معنی خواب دیکھنے کے ہیں اور چونکہ گھاس کے تنکے یا خشک شاخیں مٹھے میں بری بھلی سب ملی جلی ہوتی ہیں اس لئے خواب ہائے پریشان کو اضغاث احلام کہتے ہیں۔ جیسے کہ سورة یوسف میں ہے قالوا اضغاث احلام (12:44) انہوں نے کہا کہ یہ تو پراگندہ و پریشان خواب ہیں۔ اسی طرح جس بات یا کلام کا کوئی سرمنہ نہ ہو اور بےربط وملتبس ہوا سے بھی تشبیہا اضغاث احلام کہتے ہیں جیسا کہ آیت ہذا میں ہے یعنی یہ کلام پریشان خیالات کا مجموعہ ہے ۔ بل افتراہ۔ یہ محض پریشان خواب نہیں کیونکہ خواب میں ایسے کلام کو موزوں کرنا بھی ایک شان بےاختیاری ومجذوبیت کا مظہر ہے بلکہ یہ تو ایک من گھڑت کلام ہے جو ان کے اپنے دماغ کی اختراع ہے۔ بل ھو شاعر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ ایک شاعر ہے اور یہ کلام ایک شاعرانہ جولائی طبع کا نتیجہ ہے۔ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جس میں کوئی ٹھوس حقیقت نہیں اور واقعیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ اہل عرب شعر کو جھوٹ کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔ اور شاعر سے مراد ان کے نزدیک کا ذب تھا۔ اسی لئے اہل عرب جھوٹی دلیلوں کو ادلۃ شعریۃ کہتے ہیں) ۔ فلیاتنا بایۃ۔ یہ جواب شرط محذوف ہے تقدیر کلام یوں ہے ان لم یکن کما قلنا بل کان رسولا من اللہ عزوجل کما یقول فلیاتنا بایۃ۔ اگر یہ ایسا نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے بلکہ جیسا وہ خود کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرستادہ ہے تو پھر لائے ہمارے پاس کوئی (بھاری) معجزہ۔ کما ارسل الاولون۔ جیسا کہ پہلے رسول (بھاری معجزہ ) کے ساتھ بھیجے گئے تھے مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ عصا۔ وید بیضاء یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہ ان کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے اور مردہ زندہ ہوجاتے تھے۔ یہ سارا کلام بل قالوا اضغاث احلام سے لے کر الاولون تک النجوی کے ضمن میں آتا ہے۔
Top