Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ذو النون کو (یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے، آخر اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں
(21:87) ذا النون۔ کمافی (21:58) مچھلی والا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا لقب ہے کیونکہ آپ کو مچھلی نگل گئی تھی۔ آپ کو صاحب الحوت بھی کہتے ہیں۔ مغاضبا۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ منصوب۔ مغاضبۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ ناراض ہو کر۔ غصہ میں۔ ای غضبان علی قومہ۔ اپنی قوم سے ناراض ہو کر کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے اور اتباع حق سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ ان لن نقدر علیہ۔ لن نقدر مضارع نفی تاکید بلن۔ قدر کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) اللہ کا حکم۔ مثلاً وکان امر اللہ قدرا مقدورا (33:38) اور خدا کا حکم ٹھہر چکا ہے یعنی اس کے متعلق فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یا فالتقی الماء علی امر قد قدر (54:12) سو پانی اکٹھا مل گیا (اور چڑھ آیا اس قدر کہ) جتنا اسے حکم دیا گیا تھا۔ (2) اندازہ کرنا۔ مثلاً قد جعل اللہ لکل شیء قدرا (65:3) خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ اسی سے مقدار ہے وما ننزلہ الا بقدر معلوم (15:21) اور ہم اسے مناسب مقدار میں اتارتے ہیں۔ (3) بمعنی ضیق۔ تنگ کی کرنا۔ کمی کرنا۔ جیسے اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر (13:26) اللہ جس پر چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس پر چاہے تنگ کردیتا ہے ۔ اور ومن قدر علیہ رزقہ (65:7) اور جس کا رزق یا آمدنی تنگ کی گئی ہو۔ (4) قدرت رکھنا۔ طاقت رکھنا۔ واللہ علی کل شیء قدیر (2:284) اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور ایحسب الن یقدر علیہ احد (90:5) کیا وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کسی کو قدرت نہیں۔ آیت ہذا میں قدر کا استعمال بمعنی ضیق تنگی کرنا کے معنی میں آیا ہے یعنی (اس نے خیال کیا) کہ ہم اس پر تنگی نہیں کریں گے (راغب) ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کریں گے۔ ہم اس پر کوئی داروگیر نہیں کریں گے۔ (تھانوی)
Top