Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 93
وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ١ؕ كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
وَتَقَطَّعُوْٓا : اور ٹکڑے ٹکڑے کرلیا انہوں نے اَمْرَهُمْ : اپنا کام (دین) بَيْنَهُمْ : باہم كُلٌّ : سب اِلَيْنَا : ہماری طرف رٰجِعُوْنَ : رجوع کرنے والے
اور یہ لوگ اپنے معاملے میں باہم متفرق ہوگئے (مگر) سب ہماری طرف رجوع کرنے والے ہیں
(21:93) تقطعوا ماضی جمع مذکر غائب تقطع (تفعل) مصدر۔ انہوں نے کاٹ دیا۔ انہوں نے توڑدیا۔ انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا امرہم۔ ای امر دینہم۔ اپنے دین کے معاملہ کو۔ اپنے دین کے کام کو۔ یعنی اپنے دین کو۔ وتقطعوا امرہم بینہم۔ انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ یعنی اختلافات کو جگہ دی پھر ایک گروہ ایک بات پر جم گیا۔ دوسرے نے دوسری بات کو گرہ میں باندھ لیا۔ علی ہذا القیاس۔ اختلفوا فی الدین فصا روا فرقا واحزابا حتی لعن بعضہم بعضا وتبرا بعضہم من بعض (الخازن) دین میں اختلاف کرنے لگے اور فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے لگے۔ اور ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔ آیت سابقہ (21:92) میں خطاب حاضر سے تھا اب غائب کا صیغہ استعمال ہو رہا ہے یہ التفات ضمائر قرآن حکیم میں عام ہے۔ کل۔ ای کل واحد من الاحزاب۔ فرقوں کا ہر ایک ۔ یعنی ہر ایک فرقہ یا گروہ ۔ راجعون۔ لوٹ آنے والے (یوم حشر کو) رجوع سے اسم فاعل ۔ جمع مذکر۔ کل الینا راجعون۔ مطلب یہ کہ۔ اب یہ جو کچھ کرنا چاہیں کرلیں۔ آخر کار ایک دن انہوں نے ہمارے پاس آنا ہے اس دن ان کو ان کے اعمال کی جزاسزا بھگتنا ہی پڑے گی !
Top