Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
(21:95) وھرام علی قریۃ اھلکنھا انہم لا یرجعون۔ اور حرام ہے (ناممکن ہے) کہ جس بستی کو (اہل بستی کو) ہم نے ہلاک کردیا (اس کے باشندے) پھر لوٹ کر آجائیں یہاں لا نفی کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہے وہ ہرگز ہرگز نہیں پلٹے گی۔ اس رجعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اس تباہ شدہ بستی (یا اہل بستی کی) حیات نو۔ یعنی جب وہ ایک دفعہ ہلاک کردی گئی تو اس کی نشاۃ ثانیہ ناممکن ہے۔ وہ صرف اب قیامت کے روز ہی اٹھائی جائے گی۔ (2) ان کا توبہ کی طرف رجوع ناممکن ہے تا آنکہ قیامت کا دن آجائے اور اس وقت ان کا رجوع بےفائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا۔ (3) ان کا کفر سے ایمان کی طرف رجوع بھی تاروز حشر ناممکن ہوگا۔ اور حشر کے دن ایسا رجوع ناممکن الحصول ہوگا۔ نمبر 2 ۔ و 3 ۔ کی صورت میں بستی یا اہل بستی کا اہلاک بمعنی ملزم اہلاک ہوگا۔ یعنی اگر علم الٰہی میں ان کا اہلاک مقدر ہوچکا ہے تو وہ نہ توبہ کی طرف رجوع کرسکیں گے اور نہ کفر سے ایمان کی طرف۔ آیات 96 ۔ 97 قرب قیامت کی علامت کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔
Top