Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر چاہے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں
(22:29) اس کا عطف یذکروا پر ہے۔ ثم۔ پھر۔ یعنی جب تم جانور کی قربانی سے فارغ ہو چکو۔ لیقضوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب تو انہین چاہیے کہ دور کریں۔ القضاء کے معنی قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینا۔ قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں ۔ (1) قضاء الٰہی ۔ (2) قضاء بشری۔ (1) قضاء الٰہی قضاء قولی کی مثال۔ وقضی ربک ان لا تعبدوا ایاہ (17:23) پھر دو دن میں سات آسمان بنا دئیے۔ (2) (1) قضاء بشری۔ قولی کی مثال۔ قضی الحاکم بکذاحاکم نے فلاں فیصلہ کیا (کیونکہ حاکم ہمیشہ زبان کے ساتھ فیصلہ دیتا ہے (2) قضاء بشری کی عملی کی مثال : فاذا قضیتم مناسککم (2:200) پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کر چکو۔ آیت ہذا میں قضاء بشری عملی کی مثال ہے ۔ ثم لیقضوا تفثہم میں تفثہم کا مضاف محذوف ہے عبارت یوں ہے۔ ثم لیقضوا ازالۃ تفثہم۔ پھر انہیں چاہیے کہ اپنی میل کچیل پوری طرح دور کریں۔ تفثہم۔ مضاف، مضاف الیہ ۔ ان کا میل کچیل۔ تفث کے اصل معنی اس غبار اور میل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے لیکن حج کے بیان میں اس سے مراد احرام کھولنا حجامت بنانا۔ نہانا وغیرہ کے ہیں وہ پابندیاں جو کہ احرام کی حالت میں عائد کی گئی تھیں جن سے بدن پر میل کچیل آجانا ایک قدرتی امر ہے۔ لیوفوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب ایفاء (افعال) مصدر سے۔ چاہیے کہ وہ پوری کریں۔ نذورہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی نذریں۔ اپنی نذریں۔ اپنی منتیں۔ ولیطوفوا۔ فعل امر۔ جمع مذکر غائب تطوف (تفعل) مصدر چاہیے کہ وہ طواف کریں (طواف زیارت یعنی طواف افاضہ کی طرف اشارہ ہے) ۔ عتیق۔ پرانا ۔ قدیم۔ دشمنوں سے محفوظ کہ اس پر کسی جابر کا قبضہ نہیں ہوا۔ عزت وشرف والا۔
Top